تحریر: ڈاکٹر شیر شاہ
.
عطیہ خاتون ڈاکٹر عطیہ ظفر میری والدہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔ سات سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والی عطیہ خاتون کو اپنے والد یعنی میرے نانا کی صرف یہی بات یاد رہی تھی کہ ’’میں تمہیں پڑھائوں گا اور تم گائوں کی پہلی میٹرک پاس لڑکی ہوگی‘‘
.
ٹائیفائیڈ کا شکار ہو کر انتقال کرجانے والے میرے نانا کے بعد عطیہ خاتون کی زندگی سہم کر رہ گئی تھی۔ وہ تین بہنوں اور ایک بھائی کی سب سے بڑی بہن تھیں ، ہر وقت اداس اور پریشان رہنے والی اپنی ماں یعنی میری نانی کا بھی سہارا تھیں۔ سارا سارا دن چھوٹے بھائی اور بہنوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی ماں کی بھی دلجوئی کرنی پڑتی تھی۔ بچپن میں ہی ان کا بچپن چھن گیا تھا۔ اس وقت بہار کے دو افتادہ گائوں دیسنہ میں رہنے والی عطیہ خاتون کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ مستقبل میں زندگی کے راستوں میں کتنے پیچ و خم ہوں گے اور وہ کس طرح سے ان کٹھنائوں پر فتح یاب ہوں گی۔
.
13سال کی عمر میں یتیم عطیہ خاتون کیلئے ایک ایسے شخص کا رشتہ آیا جو روایات کا باغی تھا جس کی ماں اس کی کم عمری میں ہی موت کا شکار ہوگئی تھیں جو 23سال کی عمر میں بہار کی انڈین نیشنل کانگریس کا سرگرم کارکن تھا۔ بہار کے زیادہ تر مسلمان مسلم لیگ میں تھے۔ سید ابو ظفر میرے والد کا شمار ان سر پھروں میں ہوتا تھا جو گاندھی جی کے چیلے کہلاتے تھے۔ میرے دادا اور دیگر رشتہ داروں کا خیال تھا کہ سید ابو ظفر کو سدھارنے کا طریقہ یہی تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے۔ ایک یتیم اور دو بہنوں کی بڑی بہن کیلئے آنے والے اس رشتے کو فوراً ہی قبول کر لیا گیا تھا۔ نہ چاہنے کے باوجود ابو ظفر خاندان کے دبائو کی وجہ سے عطیہ خاتون کے شوہر بن گئے اور عطیہ خاتون عطیہ ظفر بن گئیں۔
.
عطیہ ظفر نے واجبی تعلیم حاصل کی تھی انہیں قرآن پڑھنا آتا تھا اور وہ کم عمری میں ہی گھریلو کام کاج کی ماہر تھیں۔ میرے والد بہار میں کانگریس کے بہت سرگرم کارکن تھے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی جی اور پروفیسر باری سے تعلقات رکھتے تھے۔ میری والدہ شادی کے بعد دیسنہ گائوں اور اپنے گھر کے سیاست زدہ ماحول سے نکل کر پٹنہ جیسے بڑے شہر میں آگئی تھیں۔ میرے دادا کے گھر میں میرے والد کی سوتیلی والدہ کنیز فاطمہ نے ان کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا، وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، کتابوں کے ساتھ موسیقی سے شغف رکھتی تھیں۔ اس زمانے میں ان کا اپنا ہارمونیم تھا اور یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ انہوں نے میری والدہ کو میرے والد جیسے مشکل باغی کے ساتھ رہنے کے گر بھی بتائے اور میری والدہ کے دل میں موجود پڑھنے کی لگن کی حوصلہ افزائی کی ۔میری والدہ ہمیشہ ان کا نام عزت و احترام سے لیتی تھیں کیونکہ شہری زندگی کے اطوار انہوں نے ان سے ہی سیکھے تھے۔
.
اسی زمانے میں پٹنہ میونسپلٹی کے الیکشن میں کانگریس پارٹی کی حمایت کی وجہ سے میرے والد کا انتخاب ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے ہوا اور ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ وہ گاندھی جی کے ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں آگے آگے تھے۔
.
پاکستان بننے سے قبل میرے دو بھائی پیدا ہوئے جن کا نام میرے والد نے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ رکھا۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ اس زمانے میں ہمارے کچھ رشتہ داروں نے ان کے عقیقے میں شرکت سے انکار کردیا کیونکہ یہ نام انگریز مخالف آزادی کے متوالوں کے تھے۔ میری والدہ بتاتی تھیں کہ ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا عقیقہ میرے دادا نے ہمایوں ظفر اور سراج ظفر کے نام سے کیا تاکہ خاندان کے سارے افراد شریک ہو سکیں۔
.
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد میرے والد کے استاد اور کانگریس کے بہت اہم رکن پروفیسر باری کا اس وقت قتل ہوگیا جب وہ کانگریس حکومت کی بدعنوانیوں کے بارے میں بات چیت کرنے کیلئے گاندھی جی سے ملنے جارہے تھے۔ اس واقعے کے فوراً بعد میرے والد نے ہندوستان اور سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پاکستان روانہ ہوگئے تھے۔پاکستان آکر انہوں نے لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں ہزاروں مہاجرین کی طرح جھگی ڈال کر رہنے کا انتظام کیا اور آتما رام پریتم داس روڈ پر ہندوئوں کے ایک ویران پاٹھ شالا میں غازی محمد بن قاسم اسکول کی داغ بیل ڈالی،
.
ابا ہندوستان سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کرکے آئے تھے، ان کی رائٹنگ بہت اچھی تھی اور وہ اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں بہت خوش خط تھے۔ انہیں ٹائپ کرنا بھی آتا تھا اور وہ اپنے ساتھ ہندوستان سے ہی ایک ٹائپ رائٹر بھی لے کر آئے تھے۔ اسکول کے ساتھ ساتھ شام کے وقت انہوں نے لوگوں کی درخواستیں اور خط وغیرہ ٹائپ کرنا شروع کردیا اور ساتھ ہی جامعہ کراچی میں مزید تعلیم کیلئے رجسٹرڈ بھی ہوگئے۔ میری اور میری چھوٹی بہن چاند بی بی سلطانہ کی پیدائش کے بعد میرے والد نے فیصلہ کیا کہ میری والدہ کو بھی تعلیم حاصل کرنی چاہئے جس کیلئے وہ خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ ابا کا یہ فیصلہ میری والدہ کی برسوں کی تمنا تھی انہیں اپنے والد اور میرے نانا کے خوابوں کی تکمیل کی شدید خواہش تھی وہ چاہتی تھیں کہ وہ ان کے امیدوں کے مطابق دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرلیں۔
.
میری والدہ نے مجھے میری نانی اور خالہ کے پاس ہندوستان واپس بھیج دیا اور تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ گئیں۔ میرے والد اسکول کے انتظامات ، اپنی تعلیم اور دوسری مصروفیات کے ساتھ ساتھ گھر کے امور میں بھی سرگرم ہوگئے تاکہ میری والدہ مکمل یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ میری والدہ کو اس زمانے میں مشرقی پاکستان کے ایک چھوٹے سے سلہٹ کے میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا تھا۔ میرے والد نے لیاری میں اپنے نام سے الاٹ شدہ پلاٹ کو بیچ کر خاندان کا ٹکٹ کٹایا اور سب کو لے کر سلہٹ چلے گئے ۔ سلہٹ میں مکان کرائے پر لے کر اور ابتدائی انتظامات کے بعد وہ واپس کراچی آکر کام میں لگ گئے تاکہ میری والدہ بغیر کسی مالی پریشانی کے تعلیم مکمل کر سکیں۔ کئی سالوں کے بعد میری خالہ اور نانی مجھے ہندوستان سے لے کر سلہٹ آگئیں تاکہ میری والدہ کے تعلیم کے دوران وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔
.
میری والدہ نے ساڑھے چار سال میں ایل ایس ایم ایف کو کورس مکمل کیا جس کے بعد وہ کراچی واپس آگئیں۔ اسی زمانے میں حکومت پاکستان نے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کے مطابق تمام ایل ایس ایم ایف ڈاکٹروں کو اس کا موقع دیا گیا کہ وہ میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں داخل ہو جائیں اور ایم بی بی ایس کے چوتھے پانچویں سال کا امتحان دے کر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی۔
.
میری والدہ کا ابتدائی طور پر داخلہ فاطمہ میڈیکل کالج لاہور میں ہوا اور تین ماہ کے بعد ان کا ٹرانسفر کراچی کے ڈائو میڈیکل کالج میں کر دیا گیا۔ وہ جب چوتھے سال کا امتحان پاس کر کے پانچویں سال میں پہنچیں تو میرے بڑے بھائی ٹیپو سلطان کا داخلہ ڈائو میڈیکل کالج میں ہوا جہاں دونوں ماں بیٹا ایک سال تک ایک ہی کالج میں پڑھتے رہے۔ اماں نے ایم بی بی ایس کے بعد کراچی کے سول اسپتال میں ہائوس جاب کیا اور لیاری میں ہی ایک کلینک کا آغاز کر دیا۔
.
اماں مذہبی تھیں، نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا، عمرہ، حج سب کچھ انہوں نے اپنے وقت پر بڑی دلجمعی کے ساتھ کیا، عبادت میں ان کا دل لگتا تھا اور مذہبی روایات کے مطابق بڑے دنوں اور رمضان کی راتوں میں وہ دیر تک عبادت کرتی تھیں مگر ساتھ ہی ایک عجیب بات یہ تھی کہ انہیں ریڈیو سیلون سے نشر ہونے والے بھجن بھی پسند تھے اور انہیں شوق سے سنا کرتی تھیں اسی طرح سے انہیں صوفیانہ کلام کی قوالی کا بہت شوق تھا، جمعرات کی رات گئے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی قوالی کا انہیں انتظار رہتا تھا۔ ان کا وحدانیت کا تصور عام تصور وحدانیت سے بہت مختلف تھا۔
.
ہم سب بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنانے کے بعد اور ہم سب کی شادیاں ڈاکٹروں سے کرانے کے بعد ابا اور اماں دونوں کی خواہش تھی کہ ہم لوگ ملیر کے علاقے میں ایک ایسا اسپتال بنائیں جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوسکے۔ کرنا کچھ اس طرح سے ہوا کہ ملیر کے ایک گائوں کوہی گوٹھ میں ہم لوگوں نے زمین حاصل کر کے ایک عورتوں کا اسپتال کھولا مگر اس اسپتال کے کھلنے سے پہلے اور اس زمین کے حصول تک جب جب مسائل درپیش ہوئے میرے والد اور والدہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ برے کام کرنے کو سب جمع ہو جاتے ہیں اچھا کام کرنا مشکل ہے مگر آخر کار اچھائی کی ہی فتح ہوتی ہے۔
.
میری والدہ اپنا اسپتال عطیہ اسپتال کے نام سے بڑی محنت سے چلاتی رہیں جہاں انہوں نے دن رات لگائے اور لوگوں کے درمیان اپنی حیثیت بنائی، آج اس علاقے میں ہر ایک ان کی عزت ہی کرتا ہے یہی اسپتال ان کی پہچان ہے۔ 14فروری 2014ء کو دن کے دو بجے میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑے سے اختلافات کے بعد ہم سب نے فیصلہ کیا کہ والدہ کی آخری آرام گاہ کوہی گوٹھ اسپتال میں ہوگی۔
+ There are no comments
Add yours