محمد ہدایت اللہ عارفی
حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری دربہنگہ ضلع سے ٤٠ کیلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع بہت ہی مشہور اور مردم خیز بستی ہرسنگھ پور میں پیدا ہوئے،اپ کی پیدائش سن ١٩١٠ع مجدد علم وعرفان پیر طریقت عارف باللہ حضرت مولانا عارف صاحب کے گھر ہوئی،اپ کے دادا محترم الحاج بلاغت حسین صاحب کو قطب دوران فضل رحمان گنج مرادآبادی سے شرف بیعت حاصل تھا،اپ کے جد امجد منشی امداد حسین عرف ہندی بابو کا شمار اپنے عصر کے مشہور انشاء پردازوں میں تھا، ایسے دینی اور علمی ماحول میں اپ کی پرورش و پرداخت ہوی،ابتدای تعلیم والد وماجد سے حاصل کی، ثانویہ درجات کی تعلیم کیلئے آپ نے بہار کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ دربہنگہ کا رخ کیا اور وقت کے ممتاز علماء کرام سے استفادہ کیا، اعلی تعلیم کیلئے دار العلوم دیوبند کا رخت سفر باندھا اور وقت کے ممتاز اور ائمہ فن سے کسب فیض کیا،اپ کا شمار ممتاز طالب علموں میں تھا، ١٩٣١ ع میں فراغت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی قیادت میں جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا،گاوں گاؤں آپ نے دورہ کیا اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزادی کیلئے آگے آئیں،ہندو مسلم اتحاد کیلئے ملک کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا،اسی اثنا سہارنپور پوپی سے ایک پروگرام کے درمیان اس جانباز مجاہد آزادی کی گرفتاری ہوئی،١٩٣٣ میں جیل سے رہائی ہوئ تو آپ دہلی آگئے،اور یہاں جامع مسجد میں منعقد ایک عظیم اجتماع سے ولولہ انگیز تقریر کے ذریعے جنگ آزادی کے متوالوں میں جوش جہاد برپا کردیا، یہاں سے لوٹ کر اپنے وطن اگۓ اور مسلسل انگریزوں کے خلاف مہم چلاتے رہیں تاآنکہ رب ذوالجلال نے ملک ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرایا اور آپ کا آزاد بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا.
امارت شرعیہ اور مولانا لطف الرحمن صاحب
آپ بڑے تحریکی اور فعال تھے،دہلی سے واپسی کے بعد مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب کی قیادت میں تحریک امارت شرعیہ میں شریک ہوگئے اور امارت شرعیہ کی خادم کی حیثیت سے بیش بہا خدمات انجام دی، اپ نے مالی استحکام کیلئے بڑی کوششیں کیں،اور اپنے علاقے میں امارت کو خوب متعارف کرایا،١٩٣٤ کے بہار کے ہولناک زلزلہ ( جس نے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان پہنچایا ) میں امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ متعدد راحت کیمپوں کے اپ نگراں بناۓ گئے،اس کے ذریعہ آپ نے بے سہاروں اور بے پاروں ومددگار لوگوں کی بڑی خدمت کی،اللہ آپ کو بہتر بدلہ دیں.١٩٣٤ کے آخر میں اپ نے حزبِ اللہ نام کی ایک دینی تنظیم قائم کی،اس کے تحت تحفظ ختم نبوت،تعزیہ داری،بدعت وخرافات اور بہت ساری برائیاں کو ختم کرنے کیلئے علمی اور عملی کوششیں کیں.اپ کی یہ اصلاحی کوششیں جاری وساری تھی کہ اسی دوران حضرت مولانا لطف اللہ رحمانی سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر کے ایماء پر مالدہ شہر تشریف لے گئے،اور وہاں خدمت دین اور خدمت خلق میں مصروف ہوگئے،گم گشتہ راہ کو صراط مستقیم کی طرف لانے پر مامور ہوگۓ،اللہ نے آپ کی محنت کو قبول کیا اور بہت سارے لوگ تائب ہوے،یہاں آپ نے ترجمان القرآن نامی ایک تنظیم قائم کیا جس کے تحت مالدہ شہر اور اطراف مالدہ میں یومیہ درس قرآن دیتے،اور اصلاحی اور علمی حلقے لگاتے جس سے شہر کا تعلیم یافتہ طبقہ مستفید ہوتا،اسی طرح کم پڑھے لکھے لوگ مولانا کے اصلاحی حلقہ سے فائدہ اٹھاتے،چنانچہ امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی صاحب حیات عارف میں تحریر فرماتے ہیں “شہر کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بڑے ذوق وشوق سے موصوف کے درس میں شریک ہوتا اور موصوف کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتا میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ موصوف کو مالدہ میں خواص وعوام کے درمیان جو اعزاز ورسوخ حاصل تھا،وہ مقامی طور پر کم لوگوں کو حاصل ہوگا”
اپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی،اپ درس قرآن کے ساتھ ساتھ تحقیق وتصنیف کا کام بھی کرتے تھے،اپ کی پہلی کتاب ” دین اسلام” اردو ایڈیشن مکتبہ ترجمان القرآن مالدہ سے ١٩٤١ میں شائع کی گئی.حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی اس کتاب کی اہمیت وافادیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں “دین اسلام خود جس طرح سیدھا سادہ، ایچ پیچ سے پاک،مبسوط وجامع ہے،اسی طرح اسے کھول کر بیان کرنے والا یہ رسالہ بھی صاف وسادہ،موقع موقع پر مشرح ومدلل اور اپنے مقصد کے اظہار میں کافی وجامع ہے”
مصنف نے کتاب کے آخر میں اپنے محبین اور معتقدین کیلئے بہت ہی اہم نوٹ لکھا ہے ” میں نے اس کتاب کو اشاعت دین کیلئے وقف کردیا ہے،اسکی آمدنی سے اس کتاب کے دوسرے حصے،اور تراجم اور ناچیز کی دیگر تصانیف خصوصاََ تفسیر کی کتاب چہاپی جاۓ گی،مسلمانوں میں انگریزی،بنگلہ کے ادیبوں کی کمی نہیں ہے،مجھے امید ہے کہ دین کا درد رکھنے والے حضرات وقت کی سب سے اہم ضرورت کی جانب پھلی فرصت میں متوجہ ہوں گے،اور اس کتاب کا ترجمہ کردیں گے”
علوم دینیہ کے نشرواشاعت کیلئے ایک ادارہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ کے نام سے قائم کیا جس سے تشنگانِ علوم نبوت سیراب ہونے لگے،الحمد اللہ ادارے کا فیض جاری ہے، عاجز کی تحقیق سے مدرسہ کے اساتذہ نے بتایا کہ الحمدللہ حضرت کی محنت سے مدرسہ خود کفیل ہے،ادارے کے پاس شہر میں اپنی مارکیٹ اور گیراج ہے جس سے اساتذہ کو مناسب تنخواہیں دی جاتی ہے.مدرسہ جب ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلیں تو حضرت کو اپنے علاقے کی فکرستانےلگی،مدرسہ مولانا تفضل صاحب بھاگلپوری کے حوالہ کیا اور اپ ١٩٦١ میں وطن واپس آگئے,
آپ کے قیام مالدہ کی حسن کارکردگی کو ڈاکٹر ایم صلاح الدین صاحب نے اپنی کتاب چراغ آگہی میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں”جدید تعلیم یافتہ طبقے سے مراسم وروابط نے ان کے فکر کو مہمیز کیا،انہیں لگا کہ مغرب کی ترقی،فکری تحریکات اور ثقافتی یلغار سے مسلمانان ہند کی نئی نسل کا فکر وعمل جس تیزی سے بدل رہا ہے اس تناسب میں دینی حمیت بیدار کرنے،جوش عمل ابھارنے اور اصلاح عقیدہ کی کوششیں سامنے نہیں ہیں اسکی فکر نے ان کے عمل کے ساتھ قلم کو بھی حرکت دے دی” آگے وہ لکھتے ہیں کہ” تقسیم ملک کے وقت بھڑکے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات میں بھی مالدہ میں سینۂ سپر رہے اور راحت رسانی اور ماحول کو سازگار بنانے میں سرکردہ لوگوں کے شانہ بشانہ رہے”
مالدہ شہر سے واپسی کے بعد اپ نے اپنے گاؤں میں قیام کو ترجیح دیا اور وہی سے آپ اپنے قلمی اور علمی مشن میں مشغول ہوگئے، وہاں رہتے ہوئے ہوے اپ نے علاقے میں فکری ارتداد اور علمی انحراف کا مشاہدہ کیا جس نے آپ کو بیکل کردیا اور اصلاحی دورے پڑ نکل پڑے تاکہ لوگوں کے شعور کو بیدار کیا جاۓ اور بنیادی دینی تعلیم سے ہر فرد کو جوڑ دیا جائے، اسی دوران آپ کے چھوٹے بھائی مولانا ولی الرحمان صاحب رحمۃ اللہ (جو ان دنوں چھٹی میں تھے)نے آپ کو طلب کرلیا کہ ایک علمی اور اصلاحی دورہ یہاں کا کریں جو علمی اعتبار سے بہت ہی پسماندہ تھا اور اپ کی واعظانہ تقریروں سے یہاں بہت فائدہ ہوگا،واخي هارون، أشدد بي ازري، واشركه في أمري. اپ وہاں گئے اور وہاں قیام کرکے لوگوں کی تربیت کی اور انہیں علم دین کے حصول پر آمادہ کیا،الحمد اللہ آج وہاں علماء کی ایک بڑی تعداد ہے جو دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، اللہ قبولیت سے نوازے.اپ ہی کے مشورے سے وہاں سارے امور انجام پاتے تھے،وہاں سے آپ کا گہرا تعلق تھا،ماضی میں وہاں کے بہت اسفار ہوئے تھے لیکن مالدہ سے واپسی کے بعد یہ اپ کا پہلا اور خالص اصلاحی سفر تھا.
حضرت مولانا کا مطالعہ بڑا وسیع،علم میں بڑی پختگی، دینی و اصلاحی کاموں کا بہت عمدہ تجربہ تھا،ضرورت تھی کہ اس تجربے کی روشنی میں امت کی رہنمائی کیلئے ایک ایسی کتاب لکھی جاۓ جو مفید اور کارآمد ہو، فأما الزبد فيذهب جفاء وأما ما ينفع الناس فيمكث في الأرض، لہذا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کے قلم سے ایک شاہکار تالیف سامنے آئی، جسکا نام الخطب الرحمانیۃ ( خطبات رحمانی) کے نام سے ١٩٦٣ میں منظر عام پے آئ،مولانا موصوف نے سال بھر کے ٥٢ خطبے اور دو عیدیں کے خطبے الگ الگ مضامین پر مشتمل مرتب کردیا جسے اہل علم نے بہت سراہا اور مقبول عام ہوئی.اس کتاب پر وقت کے ممتاز علماء کرام کے تبصرے اور گراں قدر مقدمے ہیں،اس وقت کے امام حرم مکی کے خطیب عبداللہ الخیاط نے بھی تائیدی وتحسینی تحریر سے نوازا ہے.
مولانا مرحوم کی زندگی میں خطبات رحمانی کے دو ایڈیشن آچکے تھے، اور بفضلہ تعالیٰ بہت مقبول ہوے،کافی عرصے سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اس کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو،اللہ جزاے خیر دیں عم مکرم مفتی تقی قاسمی صاحب مدظلہ نے ٢٠٠٣ میں حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تقریظ کے اضافے کے ساتھ جدید ایڈیشن شائع کرایا،ماشاء اللہ یہ ایڈیشن بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور سال بھر کے اندر ہی سارے نسخے ختم ہوگۓ،ضرورت ہے کہ پہر سے اسے شائع کیا جاے.حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ اس کتاب کی اہمیت وافادیت کے بارے میں لکھتے ہیں “الخطب الرحمانیۃ جن کے مصنف حضرت مولانا لطف الرحمن قاسمی رحمۃاللہ علیہ تھے،مسلمانوں کے اصلاح کا انہیں زندگی بھر خیال رہا،مولانا بڑی محنت سے ان خطبات کو کتاب وسنت کی روشنی میں جمع کیا،عربی خطبات کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی عام فہم اردو میں کیا،تاکہ وہ پڑھ کر عوام کو سنایا جائے،اور عوام اس کی روشنی میں اپنے اعمال واخلاق اور عقائد کی اصلاح کریں اور گھر پہنچ کر اپنی اولاد کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلائیں”مولانا موصوف کے بارے میں اپ لکھتے ہیں “خطبات رحمانی کے مؤلف حضرت مولانا لطف الرحمن ایک بڑے اللہ والے خاندان کے چشم وچراغ تھے،اپ کے والد محترم حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری ایک بڑے خطہ کے مرشد وپیر تھے اور ان کا سلسلہ ہنوز قائم ہے،اپ کے پسماندگان میں کافی جید الاستعداد علماء کرام ہیں”.
جب مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس اہم علمی کام سے فارغ ہوئے تو آپ کو عالمی منظر نامے میں ہورہے انتشار،بد امنی،عالمی جنگ عظیم سے پیدا ہونے والے حالات نے بہت متاثر کیا، آپ نے امن عالم کیلئے قرآن کریم کی آیت (إن الله يأمر بالعدل والإحسان إلى آخره) کی روشنی میں ایک علمی مسودہ تیار کردیا جس کا نام بھی آپ نے امن عالم ہی رکھا، یہ رسالہ بھی بہت مقبول ہوا اور علمی حلقے میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی.اس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر لچھمن جہا سابق وائس چانسلر متہلا یونیورسٹی نے ہندی ترجمہ کرکے “وشوشانتی” کے نام سے ١٩٧٦میں شائع کیا.اپ اس کتاب پر تبصرے کرتے ہوئے لکھتے ہیں “مولانا لطف الرحمن صاحب پچھلے پندرہ سال سے دنیا کے تمام ملکوں میں امن اور چین ہو،اسی کام میں لگے ہوئے ہیں.اسکے پہلے ہندوستان کی آزادی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی کے بہت دن لگاۓ،ابہی بڑھاپے میں دنیاوی امن کے کام میں انکی لگن دیکھتا ہوں” آگے لکھتے ہیں ” اللہ مولانا صاحب کی زندگی برقرار رکھیں کہ ہمیں انکی باتوں سے دن دن سکھ ملے،اور ہم امن کی زندگی میں آگے بڑھیں”آج کے حالات میں اس کتاب کی اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے.ڈاکٹر ایم صلاح الدین اپنی کتاب چراغ آگہی میں اسکی جامعیت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” انتشار عالم کے اسباب وعلل کا تجزیہ اور امن عالم کا فکر انگیز حل بہت بسیط وہمہ گیر موضوع ہے مگر مولانا ممدوح نے نہایت جامعیت کے ساتھ اس رسالہ میں سمیٹ لیا ہے اور ایسے عالمانہ مبحث کو اتنے سادہ أسلوب میں پیش کیا ہے کہ باتیں راست دل میں اترتی اور دامن فکر کو جھنجھوڑتی چلی جاتی ہیں”
آپ رحمۃ اللہ نے عشق رسول،اور جذبہ ایمانی سے لبریز ہوکر سیرت کی کتاب تالیف کرڈالی،اس کتاب کا نام “سیرت حبیب خدا المعروف عید میلاد شریف” رکھا اور پہلی قسط ١٩٨٣ میں شائع کردی. اس کتاب کے متعلق ڈاکٹر ایم صلاح الدین لکھتے ہیں “روایتی مجلس میلاد کی کتابوں کے برعکس اس میں اپنی افتاد کے مطابق جدت سے کام لیا،اس میں صرف قرآن وحدیث کے حوالے سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایمانی جوش وجذبہ کو ابھارنے اور عمل وعقیدہ میں پختگی پیدا کرنے والے فکر انگیز واقعات ونکات،جذبے کو اپیل کرنے والے اسلوب میں پیش کیا، اور ممتاز شعرا کے بر محل اشعار کی موتیاں سجاکر روایتی مزاج کو لبھانے کی سعی کی ہے.”
یہ تھے ہمارے حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کی زندگی علم دین کی اشاعت،قران وحدیث کی خدمت،اور ملک کی حفاظت میں گزر رہی تھی کہ اچانک رب ذوالجلال کی طرف سے ٤ ستمبر کی رات کو بلاوا آگیا اور داعی اجل کو لبیک کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ اپ کی قبر کو نور سے بھر دیں.
+ There are no comments
Add yours