ہوش عظیم آبادی : ‘کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی’ 

Ali Fraz Rezvi

،سب نے دیکھا تجھے ائے صبح بہار تمکیں 

،کم نے جانا تجھے ائے حسرت چشم بدمیں 

سید ارتض ٰی حسین رضوی المتخلص بہ ہوش، سرزمین عظیم آباد کا وہ نایاب ترین نگینہ کہ جس کی قدر و اہمیت جاننے سے خود ،اہل عظیم آباد قاصر رہے 

یقینا مشاہر بہار میں ہوتا ہے، صنف مرثیہ نگاری ہو غزل گوئ یہ نظم نگاری، یہ کہنا ً  ،بجا ہوگا کہ ان تمام اصناف پر انہیں یکساں قدرت حاصل تھی

ہوش اس شخصیت کا حامل کہ جس کا شمار 

صد حیف کہ دیدہ ریزی اور باد ہزار ہا کاوش چند غزلیں ہی دستیاب ہو سکیں، اس فقدان کا ذمہ دار خود شہر عظیم آباد کے ،دانشور حضرات کو ہی مانا جائے گا کیونکہ انہوں نے اس کنز مخفی پر نہ تو کام کیا نا ہی اسے عام کرنے کی کوشش 

شاد و زار کے باد اس ختہ زمین پر موجود رہ کر خدمات انجام دینے واال، ادبی محفلوں اور نشستوں کو برقرار رکھنے واال، آداب !و انداز میں یکتا، ہوش 

جنوری 1921 کو اپنے نانیہال، یانی کہ میتن گھاٹ میں پیدا ہوئے، تقریباَ 20 سال کی عمر تک وہیں قیام کیا، اور پھر اپنے 5 آبائ مکان دولیگاٹ جوکہ صرف نصف کیلومیٹر کی دوری پر واقع تھا، منتقل ہو گئے، اور لمہہء آخر تک وہیں قیام کیا، ہوش عظیم آبادی کے والد نواب سید وارث حسین صاحب، ان کا شمار روئساء شہر میں ہوتا تھا، گرچہ ان کی سادگی اور دنیا داری سے 

ناواقفیت کے سبب جائیداد کا زیادہ تر حصہ برباد ہو گیا، اس کے باوجود ہوش کی وضع داری اور مہمان نوازی کے قصے مشہور ،عام رہے 

جس دور میں یہاں جمیل مظہری ، پرویز شاہدی اور اجتب ٰی رضوی کی تثلیث بنی اسی عصر میں پٹنہ سیٹی میں بھی تین عظیم ’’ شخصیات خاموشی سے شعر وادب کی خدمت انجام دےرہی تھیں۔ وہ ہیں زار عظیم آبادی ، دانش عظیم آبادی اور ہوش عظیم ‘‘آبادی۔ ان کی بھی تثلیثی شکل بنی ۔ 

(ہوش عظیم آبادی فن اور شخصیت ؛ بہار کی خبریں صفحہ 23 ، فروری 1985(  

،بات اگر ہوش کی شاعری کی کریں تو ان کا رنگ سخن زمانہ جدید و قدیم کا ایک حسین ترین مجموع ہے 

کرکے کچھ پرورش جذبہ عصیاں میں نے
،تیز کی روشنی عالم امکان میں نے 

کل جو دیکھا طرف خانہ ویراں میں نے
،پھاڑ پھینک دی تصویر بیابباں میں نے 

اس کے بجھنے کا جگر سوز نظارہ بھی کیا
،ہوتے جس شمع کو دیکھا تھا فروزاں میں نے 

اب بھی اے ہوش وہی وحش ِت دل ہے کہ جو تھی
،سی کے بھی دیکھ لیا چاک گریباں میں نے 

ہوش کے کالم میں سرزمین عظیم آباد کا ایک روائتی کالسک ڈھنگ بھی ہے اور دور جدید میں شاعری کی بدلتی رنگت کا پر پیچ ،اثر بھی، اور ہوش نے بہ ذات خود اپنی غزلوں پر شاد کے اثرات کا ذکر کیا ہے

،اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ
،تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا 

،شاد عظیم آبادی 

،اور وہیں ہوش کا یہ شعر
،کر دیا لیجیے اظہار تمننا میں نے
،اب بہت دیر نہیں ہے میری رسوائ میں 

،ہوش عظیم آبادی 

ہوش کے اشعار میں اکثر ایک ٹیس کا احساس ہوتا ہے، ایک ایسی ٹیس کی جو دلیل ہے ایک خواہش کہ نامکمل رہ جانے کی، جناب قاسم صہبا جمالی صاحب نی اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہوش ایک لمبے عرصے تک ازدواجی زندگی سے منسلک نہیں ہوئے تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک پردہ نشین خاتون سے ذہنی و قلبی لگاؤ ہو گیا تھا مگر افسوس کہ وہ بہت جلد ہی ،چل بسیں اور ہوش ایک عرصہ دراز تک اس ہجر کی تپش میں جلتے رہے 

ہم تو اس ہجر کے قائل ہیں جو اے شام فراق 

اپنے عالم میں رہے الکھ سحر ہوجائے 

،ہوش 

کمال یہ ہے کہ ہوش کی شاعری میں غالب و مومن کے بھی اسالف پنہاں ہیں، جناب خواجہ اکرام الدین صاحب نے بھی اس جانب ،روشنی ڈالی ہے 

،ایک طرف ہوش کا یہ شعر 

،ہو جو وہشت تو بیاباں سے بھی بدتر گھر ہے 

،دل بہل جائے بیاباں میں تو گھر ہو جائے 

،یا پھر 

کل جو دیکھا طرف خانہ ویراں میں نے 

،پھاڑ پھینک دی تصویر بیابباں میں نے یہ 

،اور پھر غالب کے یہ اشعار 

،کوئ ویرانی سی ویرانی ہے 

،دشت کو دیکھ کہ گھر یاد آیا 

،اور 

،اگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالب 

،ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئ ہے 

ہوش کی یہاں بھی وہ اشعار موجود ہیں جو اردو ادب میں ایک معیاری حیثیت کے حامل ہیں، مگر ہوش و غالب کے اشعار ایک ساتھ پیش کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں مدمقابل سمجھا جائے۔ پروفسور اعجاز علی ارشد صاحب نے اپنے مضمون میں ،”ہوش کے سلسلے میں لکھا ہے کہ، “میرا خیال یہ ہے وہ ذہنی طور پر غالب کے خاصے قریب رہے ہیں 

،مالحظه ہو 

کر دیا کس تپش دل نے سہارا تم کو
،کس نگاہ غلط انداز نے مارا تم کو 

اب بھی کچھ رات گئے رات ٹھہر جاتی ہے
،اب بھی آہیں مری کرتی ہیں اشارہ تم کو 

اب نہ وہ رنگِ سخن ہے نہ وہ آہنگ سخن
،ہوش کس تلخی احساس نے مارا تم کو 

حکومت بہار کے محکمہ اطالعات و تعلقات میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر کے عہدے سے سنہ 1979 میں سبکدوش ہو جانے کے باد بھی ان کے دولت کدے پر ادبی نشستوں کا انعقاد ہوتا رہا، اب تک ہوش اپنے ناتیہ اشعار کی بنا پر بھی معروف ہو چکے تھے، مگر شہر عظیم آباد کی فزا میں ان کا تغزل اب بھی برقرار تھا، ان کی غزلیں اب بھی ہر دل دادہ کی زبان پر رہتیں، کوئ ان کا ورد کرتا سڑک کے کنارے کنارے گزر جاتا تو کوئ رئیس زادہ اپنے باغ میں بلبلوں کے نغموں کے ساتھ گنگناتا، اور یہ ہوتا بھی ،کیوں نہیں؟ انکی غزلیں ہوتیں ہی تھیں اتنی دلکش اور دلفریب 

افسوس کہ اس عظیم شخصیت کی زیارت نہ ہو سکی مگر داداجان کی زبانی ہوش اور ان کی محفلوں کے قصے اکثر سنے، ہوش ،کا ایک شعر داداجان کی زبان پر اکثر ہوتا تھا 

،وقت کے ہاتھ نے دونوں ہی کو لوٹا آخر
تیری محفل میں نہ اب کچھ میری تنہائ میں۔ 

،شکریہ جناب فیضان رضا صاحب کا، کہ ان کی بدولت ہوش کی یہ پوری غزل نصیب ہوئ 

عشق کو غرق نہ کر فگر کی گہرائ میں
آگ لگ جائیگی جذبات کی رعنائ میں 

ہاۓ وہ بات جو کہتی ہے خموشی میری
آپ اسے ڈھونڈ رہے ہیں مرخ گویائ میں 

جس سے خود اپنی شب غم بھی سنواری نہ گئی
اس سے کیا ہوگا تری انجمن آرائ میں 

دوست کا ذکر ہے کیا اپنا تو یہ عالم ہے
یاد دشمن کی بھی آجاتی ہے تنہائ میں 

کر دیا لیجئے اظہار تمنا میں نے
اب بہت دیر نہیں ہے مری رسوائ میں 

وقت کے ہاتھ نے دونوں ہی کو لوٹا آخر
تیری محفل میں نہ اب کچھ مری تنہائ میں 

تیری مخمور نگاہی میں مری میخواری
،میری توبہ تری ٹوٹی ہوئ انگڑائ میں

مثالً کہیں کوئ محفل یہ مجلس ہونی ہو، ایک صاحب حاضر ہو گئے، ہوش برجستہ اشعار کہ کر لوگوں کھ ہوالے کر دیا کرتے، 

،تو انہوں نے 5-7 اشعار پر مبنی ایک کالم ان کے ہوالے کیا، پڑھا گیا داد و تحسین حاصل کی گئ مگر ہوش کا نام کہیں نہ آیا ،”جناب سید محمد علی خاں صاحب کہتے تھے کہ “کئ حضرات تو ہوش کی صحبت میں ہی شاعر ہو گئے 

حاالنکہ ہوش نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی مگر 1955 میں پہال مرثیہ کہا اور اس کے باد غزل گوئ ترک کر دی، ،”اعجاز علی ارشد لکھتے ہیں کہ “جیسے ان کی سخنوری ماتم اہل بیت کا ایک بہانا ہے 

،ہوش نے مرثیہ نگاری کے ساتھ ساتھ سوز و سالم میں بھی اپنی چھاپ چھوڈی جو اب تک باقی ہے 

،مثال کے طور پر، انکا یہ شعر ہم شبیہ پیمبر حضرت علی اکبر کی شان میں 

،اگر نہ بند نبوت کا باب ہو جاتا 

،تو یہ جواں بھی رسالت معاب ہو جاتا 

،ہوش کو کبھی چھپنے چھپانے کا شوق نہ تھا، مگر ان کے عزاخانے میں ایک پتھر موجود ہے، جس پر انکا یہ شعر نقش ہے مراد کن فیکوں ہیں حسین ابن علی 

،یہ کائنات تو ہے زیب داستاں کے لیے 

،اور انکے مرثیے کا ایک بند 

کون بتالئے کہ جذبوں کا یہ انداز ہے کیا
ہر نفس ذوق نظر کی یہ تگ و تاز ہے کیا 

جب عیاں اصل حقیقت ہے تو پھر راز ہے کیا
اب ہر اک موج تفکر پہ یہ آواز ہے کیا 

تشنگی میرے تحیر کی بجھا دے کوئی
،کاش جو کچھ پس منظر ہے دکھا دے کوئی 

غزلیں نہ صحیح مگر ان کے مدحت محمد و آل محمد میں لکھے گئے کالم آج بھی عظیم آباد کی امام بارگاہوں کی زینت ہیں، ہوش ،کے عقیدتمندانہ کالم ہی انہں تا با عبد زندہ جاوید کر گئے 

،تو ہوش جہاں سے تو گزر جائے گا اک دن
! لیکن تیرے نوحوں کی صدا یاد رہے گی 

،اگست سنہ 1984 کو ہوش نے اپنے آبائ مکان، دولیگھاٹ میں انتقال کیا، ناوک حمزہ پوری نے تاریخ وفات نکالی 20 ‘چل با آہ ہوش خوش آہنگ’ 

،اور مقبرہ نوڈھال، مغل پورہ میں دفن ہوئے 

،ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں 

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی۔ 

،ہوش


Share this Post on :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »