Friday, November 8, 2024

Urdu

Estimated read time 1 min read

  ان دنوں فیس بْک کھولتے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کسی عفریت نے اس پر قبضہ جما لیا ہے اور ’کتاب چہرہ‘کے ذمہ اب صرف موت کی خبریں نشر کرنا رہ گیا ہے۔ یہ کیسی باد سموم چلی ہے کہ مضبوط تناور درختوں کو بھی اکھاڑ پھینک رہی ہے۔ سب کے دلوں میں مہلک وباکا خوف اور موت کاامکانی خطرہ پنجہ گاڑے ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ہم صرف نوحہ لکھنے کے لیے باقی رہ گئے ہیں، اور ہمارے درمیان موجود قیمتی موتی یکے بعد دیگرے بکھرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ کیسا وقت آن...

You May Also Like:

کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے – بیادِ مجاہدِ آزادی اور ٹریڈ یونین لیڈر قیوم اثر(١٩٢٢-١٩٩٤)  

قیوم اثر مجاہد آزادی اور ٹریڈ یونین لیڈر ہونے کے علاوہ ایکسماجی کارکن بھی تھے۔ وہ گیا شہر میں قائم مرزا غالب کالج کے بانیوں میں سے تھے۔ انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے قیامکے بعد وہاں کی اردو بولنے والی آبادی کا حال جاننے کے لئے جئے پرکاش نرائن نے اندرا گاندھی اور شیخ مجیب کی ناراضگی کے باوجود جو سات رکنی وفد بھیجا تھا وہ اس میں شامل تھے۔

میری ماں۔ ڈاکٹر عطیہ ظفر

تحریر: ڈاکٹر شیر شاہ . عطیہ خاتون ڈاکٹر عطیہ ظفر میری والدہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔ سات سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والی […]

Translate »