مولانا ولی رحمانی : قوم کے ہر فرد کو ان کی شخصیت سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ بات سال 2011 کی ہے۔ اس سال دہلی میں ’پرسن آف دی ایئر‘ ایوارڈ کے ذریعہ میری حوصلہ افزائی کی گئ۔ مجھے یاد ہے کہ اس ایوارڈ پروگرام میں مولانا ولی رحمانی صاحب بھی آنے والے تھے۔ جو کسی وجہ سے نہیں آئے۔ تب تک میں مولانا کے بارے میں بہت زیادہ جانتا نہیں تھا۔ بس ایک دو پروگراموں میں انہیں سننے کا موقع ضرور ملا تھا۔ ان کے بیباک انداز سے متاثر تھا۔ سوچا کرتا تھا کہ ہر انسان کو ایسے ہی بیباک ہونا چاہیئے، لیکن تجربوں سے یہ سیکھ ملی کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ بیباک ہوں اور لوگ آپ کو پسند کریں۔ ہم جیسے لوگوں کو صرف انہی کی بیباکی پسند آتی ہے جو یا تو پیسے والے ہوں، یا پھر کسی بڑے ادارے یا تنظیم کے سرپرست یا سجادہ نشین ہوں۔

اس پروگرام کے کچھ ہی دنوں بعد میرے پاس کال آئی کہ مولانا ولی رحمانی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ دہلی کے ذاکر نگر میں ملنے کا وقت مقررہوا۔ بعد نماز مغرب میں ان کے سامنے تھا۔ تب تک مجھے کسی کو مولانا کہنے کی عادت نہیں تھی (شاید اب بھی نہیں ہے)۔ یوں عادتاً میں نے انہیں ’سر‘ کہنا ہی پسند کیا۔ انہوں نے بھی پورے شفقت کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایا اور بات چیت شروع ہوئی۔

اس درمیان ان سے عقیدت رکھنے والے لوگ آتے رہے، کچھ ان کے ہاتھوں کو چوم رہے تھے، تو ایک دو لوگوں نے ان کے سامنے سجدہ میں گرتے بھی نظر آئے۔ میرے لئے یہ سب کچھ بڑا عجیب تھا۔ ذہن میں کئی سوال تھے، لیکن میں ان سوالوں کو درکنار کر ان کی باتوں کو سنتا رہا، اب تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر مجھے یہاں بلایا کیوں گیا تھا۔ اس درمیان کھانے کاوقت ہوا اور مولانا ولی رحمانی کے ساتھ بیحد لزیز و شاندار کھانے کا لطف اُٹھایا۔

“روٹی اور بوٹی” کی تفصیل میں جائے بغیر یہی کہوں گا کہ میں یہی سمجھ سکا کہ مولانا مجھ سے یہی چاہتے تھے کہ میں بہار میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر زیادہ سے زیادہ آر ٹی آئی ڈالنے کا کام کروں۔ یہ کام میں پہلے سے ہی کر رہا تھا۔ چانچہ میں نے انہیں بتایا کہ یہ کام تو میں نے پہلے ہی کررہا ہوں۔ لیکن آپ رہنمائی کریں تواس کام کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بھی دلچسپی دکھائی۔

میرے اندر عجیب سے تیزی آگئی، میں نے دنادن کئی مشورے ٹھوک دیئے۔ بہار میں ایک ورکشاپ کرنے کا پلان بتانے لگا۔ وہ میری ان تمام باتوں کو بڑی غور سے سنتے رہے۔ اور آخر میں یہی سوال کیا کہ ان سب کاموں کے لئے پیسے کہاں سے لاتے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ممبئی ٹی وی 9 سے استعفیٰ دے کر آیا ہوں اور ان دنوں یو این آئی ٹی وی میں ہوں۔

اب انہوں نے مجھے آفر دیا کہ میرے پاس ایک لیڈر ہے جو تمہیں اس کام کے لئے پیسے دے گا اور تمہیں اپنے آر ٹی آئی کے کام کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت اس کے کام کا بھی پرموشن کردینا ہوگا۔ یہ بات مجھے بڑی عجیب لگی۔ میں نے انہیں منع کرنے میں تھوڑی بھی دیری نہیں کی۔

اس پہلی ملاقات نے مجھ جیسے معمولی طالب علم کو بہت کچھ سیکھا دیا۔ اب میں مولانا کی بہت ساری مثبت باتوں کو لے کر گھر آ چکا تھا۔ اپنے کئی دوستوں کو اس ملاقات کی کہانی سنائی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ بس ایک بار مولانا سے ہمیں بھی ملا دو۔ تب احساس ہوا کہ جس شخصیت سے مل کر لوٹا ہوں، وہ کتنی عظیم شخصیت تھی۔
میں خوش قسمت تھا کہ یہ “عظیم شخص” مجھے گاہے بگاہے کال کرتے رہتے تھے اور مختلف موضوعات پر آر ٹی آئی ڈالنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔ ان کے ذریعے بتائے گئے کئی موضوعات پر میں نے آر ٹی آئی بھی ڈالی اور ان کے انفارمیشن سے مولانا کو واقف بھی کرایا۔ کچھ انفارمیشن کو انہوں نے اپنے خطابوں میں بھی استعمال کیا۔

اس دوران مجھے ان کے کئی مریدوں سے ملنے کا موقع ملا، کئی بار تو ایسا لگا کہ میں بھی ان کا مرید بن چکا ہوں لیکن “مریدی” کے حقلہ میں میرے شامل ہونے کا بھرم اس وقت ختم ہوگیا، جب ایک میڈیا تنظیم نے ان کے ایک ادارے پر گھوٹالوں کا الزام لگایا۔ مجھے یہ بات کہیں سے بھی درست نہیں لگی۔ میں نے اسے سمجھنے کی نیت سے مولانا کو کال لگایا تو مولانا کے جواب نے مجھے مزید پریشان کیا۔

اب پتہ نہیں کیوں اس “عظیم شخصیت” کے بارے میں مزید جاننے کا دل کیا، کہہ سکتے ہیں کہ ان پر ایک ریسرچ آرٹیکل لکھنے کا دل کیا۔ اس ریسرچ کے درمیان مجھے پتہ چلا مولانا ایک عالم دین کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی لیڈر بھی ہیں اور کانگریس سے جڑے رہے ہیں۔ 1974 سے 1996 تک بہار میں ایم ایل سی بھی رہ چکے ہیں۔ قانون ساز کونسل کے ڈپٹی اسپیکر بھی بنائے جا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں بننے کے بعد مولانا نے سیاست سے توبہ کرلی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ماضی قریب تک بے ضابطہ ہی سہی سیاست سے ان کا تعلق اب تک قائم تھا۔

سال 2016 میں میں نے ایک اسٹوری کرنے کی سوچی۔ اسٹوری یہ تھی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں 80 فیصد سے زیادہ ممبروں کی عمر 70 سال سے اوپر کی ہے۔ ایسی صورتحال میں اس بورڈ میں نوجوانوں وخواتین کی حصہ داری بیحد کم ہے۔ اور یہ سوال خود بورڈ کے ایک ایگزیکٹو ممبر نے اٹھایا تھا۔ جب اس سلسلے میں مولانا سے بات کی تو ان کے جواب نےاس باز بھی مجھے کافی پریشان کیا۔ ذہن نشیں رہے کہ فروری 2008 میں کولکاتا میں منعقد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایک تقریب میں “بوڑھی قیادت” پرخود حضرت والا کے ذریعہ تنقید کی جاچکی تھی۔ اسلئے میں نے اپنے ’پترکاریتا دھرم‘ کو نبھاتے ہوئے وہ اسٹوری لکھی۔ اس طرح میں نے انہیں کئی معاملوں میں بیحد قریب سے دیکھا، میری اپنی ذاتی رائے میں انہیں ایسا کرنا یا بولنا نہیں تھا۔ لیکن لوگوں کو اس میں بھی ان کی ’بیباکی‘ نظر آرہی تھی۔

مجھے بیحد حیرانی تب ہوئی جب ہمارے بڑے بھائی جیسے ملک کے بڑے صحافی نے مجھے بلایا اور آفر دیا کہ میں مولانا ولی رحمانی کی تعریف میں کچھ اسٹوری کروں۔ میں مونگیر جاؤں۔ ان کے تمام کاموں پر اسٹوری کروں۔ تب میں بے روزگار تھا، میں نے اسے ایک نوکری سمجھی اور اس کام کے لئے ہاں بول دیا۔ لیکن گھر آکر مزید پریشان ہوا اور سوچتا رہا کہ اتنے بڑے عالم دین کو اپنے کاموں کو تعریف کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ خیال بھی دوڑتا رہا کہ جن اصولوں کے لئے میں اب تک لڑتا رہا ہوں، میرے وہ اصول اس کام کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ کیا یہ میرے ’پترکاریتا دھرم‘ کے خلاف نہیں ہے۔ کیا میں مستقبل میں خود کو صحافی بولنے لائق رہوں گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک میں مونگیر نہیں جا سکا۔ بہار میں ہوں، مونگیر جانے کی بہت خواہش ہوئی لیکن افسوس اس بار بھی نہیں جا سکا۔ شاید میرے نصیب میں یہ تھا ہی نہیں۔

آج مولانا ہم سب کے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن مجھے ان کی وہ باتیں یاد آرہی ہیں جو وہ اکثر وقف کے حوالے سے کہا کرتے تھے۔ “اگر مسلمان بیدار ہوجائے، کسی ایک لیڈر کی ’بھکتی‘ نہ کریں، کسی کے مرید نہ بنے، اور اوقاف کے سلسلے میں ایمانداری کے ساتھ مضبوط قانون سازی ہو، وقف بورڈ کو سیاسی نومینیشن کا ذریعہ نہ بنایا جائے تواوقاف کی حالت بہتر ہوسکتی ہے، پھر نئے نئے اوقاف قائم کئے جا سکیں گے”۔

مولانا کی موت نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اب جب کہ مولانا اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی زندگی سے روشنی لیتے ہوئے اس سمت میں عملاً پہل کی جائے، جن کاموں پر انہوں نے ہمیشہ توجہ دیا۔

مولانا ولی رحمانی جیسی شخصیت صدیوں میں شاید ہی شاذ و نادرپیدا ہوتی ہے۔ قوم کے ہر فرد کو ان کی شخصیت سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اچھا رہےگا، اگر ان مثبت و تعمیری خیالات و نظریات کو نئی نسل کے دل و دماغ تک لے جانے کی خاطر ایک مکمل خاکہ تیار کیا جائے۔ خاص طور پر وقف کو لے کر ان کی جو سوچ تھی، اس پر قوم کا ہر فرد عمل کرے، ان کے نام پر وقف کی تحریک پورے ملک میں چلائی جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ وقف کی بحالی اس عظیم روح کو سب سے مخلص اور ایماندارانہ خراج عقیدت ہوگی۔

Share this Post on :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »