شاہین نظر
آنجہانی کرپوری ٹھاکر جو ان دنوں حکومت ہند کے ذریعہ بھارت رتن دئے جانے کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں غالباً اکیلے سوشلسٹ تھے جنہیں ماس لیڈر یا عوامی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ یہ ان کی ہی مقبولیت کا نتیجہ تھا کہ سوشلسٹ لیڈران جو جنتا پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد مختلف پارٹیوں میں بکھرے پڑے تھے دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے اور لوک دل کے انضمام کے بعد جنتا دل کے نام سے ایک نئی پارٹی وجود میں آئی۔ ان کی اس پیش رفت کے نتیجے میں انیس سو ستتر کے بعد انیس سو نواسی میں دوسری بار غیر کانگریسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور وی پی سنگھ ملک کے وزیر آعظم بنے۔
جنتا دل کے قیام کے سلسلے میں کرپوری ٹھاکر جن پرانے ساتھیوں سے ملے ان میں ایک نام قیوم اثر کا تھا۔ قیوم اثر مجاہد آزادی اور پرانے سوشلسٹ تھے۔ وہ ریلوے مینس یونین، جو کہ تب ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہوا کرتی تھی، کے ایکاہم لیڈر تھے۔ انتخابی سیاست ان کا میدان کار نہیں تھا اس کے باوجود کرپوری ٹھاکر ان سے ملنے گیا شہر کے کریم گنج محلے میں واقع ان کی رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ انیس سو ستتر سے اناسی کے بیچ جب کرپوری ٹھاکر دوسری بار بہار کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے اور قیوم اثر کے مشترکہ ساتھی رام سندر داس ان کی سرکار گرائے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ گویا وہ ان کے سیاسی حریف تھے۔ اس ملاقات کا مقصد رام سندر داس اور ایک اور سینیر سوشلسٹ لیڈر بساون سنگھ کو دوستی کا پیغام دینا تھا. انہوں نے کہا کہسوشلسٹوں کا متحد ہونا وقت کی ضرورت. آپ ان دونوں سے کہیے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں اور ایک ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کریں.
قیوم اثر مجاہد آزادی اور ٹریڈ یونین لیڈر ہونے کے علاوہ ایکسماجی کارکن بھی تھے۔ وہ گیا شہر میں قائم مرزا غالب کالج کے بانیوں میں سے تھے۔ انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے قیامکے بعد وہاں کی اردو بولنے والی آبادی کا حال جاننے کے لئے جئے پرکاش نرائن نے اندرا گاندھی اور شیخ مجیب کی ناراضگی کے باوجود جو سات رکنی وفد بھیجا تھا وہ اس میں شامل تھے۔
انیس سو چورانوے میں اپنے انتقال کے وقت وہ گیا شہر کے قدیم مسلم ادارہ ہادی ہاشمی ہائی اسکول کی مجلس انتظامیہ کے صدر تھے۔ وہ راقم الحروف کے والد تھے۔ چونکہ ان کی حیثیت ایک سماجی شخصیت کی بھی تھی اس لئے فرض کفایہ کے طور پر ان کے متعلق جو معلومات میرے پاس محفوظ ہیں انھیں قلمبند کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔۔۔ کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے۔
ہوش عظیم آبادی : ‘کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی’
ابّا جان، یعنی میرے مرحوم والد کا اصل نام جیسا کہ وہ بتاتے تھے سید شاہ عبدالقیوم تھا. مگر چونکہ سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے اس لئے طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنے نام کے ساتھ لگے خاندانی حوالے کو ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اپنا نام تبدیل کر کے صرف عبد القیوم کئے جانے کی درخوست اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو دی. ہیڈ ماسٹر نے ان کی درخوست منظور کر لی مگر ساتھ ہی ایک مشورہ دیا کہ اپنے نام کے ساتھ اپنا تخلص لگا لو تو اچھا لگے گا. انہوں نے یہ مشورہ مان لیا اور اس طرح سرٹیفکیٹ میں ان کا نام عبد القیوم اثر لکھا گیا. بعد کے دنوں میں وہ “قیوم اثر” کے نام سے جانے گئے. اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسکول کے زمانے میں وہ شعر کہا کرتے تھے مگر اپنے اس شوق کو جو انہیں وراثت میں ملا تھا آگے نہیں لے جا سکے اور اپنی زندگی سیاسی، سماجی اور ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کی نذر کر دی، گو شعر و ادب سے انہیں عمر کے آخری لمحے تک گہرا لگاؤ رہا جو منتقل ہو کر ہم چاروں بھائیوں تک بھی پہنچا.
ان کا تعلّق صوبہ بہار کے گیا ضلع کی ایک بستی پیربیگھہ سے تھاجو کہ شہر گیا سے قریب پندرہ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے. اس بستی میں پانی پت سے شاہ جلال الدین رحمتہ الله علیہ کے خاندان کے ایک بزرگ شاہ ماہرو رحمتہ الله علیہ اٹھارویں صدی کے اوائل میں بہار شریف کے راستے آکر آباد ہوۓ تھے جن کے اثر سے اس بستی کے علاوہ مضافات میں آباد میلوں دور تک کے دیہاتوں کی بڑی آبادی رو بہ اسلام ہو گئی. رشد و ہدایت، علم و ادب کی سنجیدہ خدمت اور دینی و سماجی امور میں عوامی قیادت اس خانوادے کا خاصّہ تھا. میرے دادا شاہ عبد العزیز المتخلص آزاد پیربیگھوی حضرت باقر علی باقر پیربیگھوی کے شاگرد تھے. اور حضرت باقر مرزا غالب کے شاگرد. دادا مرحوم ملازمت کے سلسلے میں گیا شہر میں آکر بس گئے تھے. وہ اپنے وقت کے ایک معتبر ادبی جریدہ “ندیم” کی ادارت سے بھی وابستہ تھے. والد مرحوم کے مطابق چونکہ وہ سرکاری ملازمت میں تھے اس لئے رسالے میں ان کا نام نہیں جاتا تھا مگر نگارشات کی ایڈیٹنگ وغیرہ کا بہت سارا کام رسالے کے مدیر اور ان کے دیرینہ ساتھی انجم مانپوری نے ان کے ذمّہ کر رکھا تھا. وہ یہ ذمّہ داری اپنے گھر سے ہی نبھایا کیا کرتے تھے.
والد مرحوم کی پیدائش انیس سو بائیس میں ہوئی تھی یعنی وہ زمانہ جب آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی. اپنے بارے میں وہ بتاتے تھے کہ وہ محض پندرہ سال کی عمر میں سوشلسٹ پارٹی کے “کارڈ ہولڈر” ہو گئے تھے اور اسکول چھوڑ کر کل وقتی پارٹی کے کام میں جٹ گئے تھے. پھر پارٹی کا فیصلہ ہوا کہ انہیں اسکول جاتے رہنا چاہئے تاکہ مسلمان لڑکوں کے بیچ کام کر سکیں. چنانچہ گیا شہر کے قدیم ہادی ہاشمی ہائی اسکول جہاں کے وہ طالب علم تھے پھر سے جانا شروع کر دیا اور اس طرح ان کی میٹرک تک کی تعلیم مکمّل ہو گئی.
اس کے بعد ریلوے میں ان کی ملازمت ہو گئی. سوشلسٹ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے جد و جہد آزادی میں وہ اپنا رول نبھا ہی رہےتھے، ریلوے کی ملازمت نے انہیں ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں سے روشناس کرایا. اور پھر یہی ان کی پہچان بن گئی. اس سرگرمی کے نتیجے میں وہ تین بار جیل گئے اور ملازمت سے سسپینڈ کئے گئے –ایک بار آزادی ملنے سے پہلے اور دو بار آزادی ملنے کے بعد انیس سو اڑسٹھ اور انیس سو چوہتّر میں. گویا وہ انگریزی حکومت کے ذریعہ جیل بھیجے گئے اور دیسی حکومت کے ذریعہ بھی. مگر اس سے ان کی پایئہ استقامت میں فرق نہیں آیا. ہزار مشکلیں آئیں، معاشی پریشانیاں جھیلیں پھر بھی انہوں نے نہ پارٹی چھوڑی، نہ ہی ٹریڈ یونین کی سرگرمی ترک کی. میری والدہ نے اس زمانے میں اسکول کی ملازمت کی جب پردہ نشیں عورتوں کا گھر سے باہر قدم رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا.
‘پیام دوست’ کی اشاعت
چوبیس نومبر انیس سو چورانوے کے دن انتقال سے محض ایک ہفتہ قبل ان کی مرتب کردہ کتاب “پیام دوست” چھپ کر آئی تھی. یہ کتاب ان کے نام احد فاطمی صاحب کے ذریعہ لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے. احد فاطمی صاحب کی شہرت جنگ آزادی کے ایک سپاہی کے علاوہ ایک صحافی کے طور پر بھی تھی. وہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے بنیاد گزاروں میں سے تھے اور انیس سو تیس اور چالیس کی دہائی میں ہونے والے کانگریس کے جلسوں میںصوبہ بہار سے مندوب کی حیثیت سے شرکت کرتے رہے تھے. انگریزی حکومت کے ذریعہ کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کیں. پندرہ روزہ “بھودان تحریک” (اردو) کے ایڈیٹر تھے اور علمی حلقوں میں اپنی منفرد طرز تحریر کے لئے جانے جاتے تھے. فاطمی صاحب والد مرحوم کے گہرے دوست تھے. ان کے خطوط سے نہ صرف ان دونوں دوستوں کی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے بلکہ آزادی سے ٹھیک پہلے اور آزادی ملنے کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ ملتی ہے، خاص کر ایسے لوگوں کی قربانیوں کی تاریخ جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں عموماً درج نہیں. اس کتاب سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ والد مرحوم کو ان کے ایک اور قریبی دوست قیوم قائد کے ساتھ جد و جہد آزادی کے دوران سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے انڈر گراؤنڈ سرگرمی میں لگایا گیا تھا. یہ سرگرمیاں کیا تھیں اس بارے میں انہوں نے کبھی کوئی تفصیل نہیں بتائی البتہ یہ کہا کرتے تھے کہ ایک بار انہیں پیر میں گولی لگی تھی اور زخم کا اعلاج انہوں نے چھپ کر کروایا تھا.
“پیام دوست” کی رسم اجراء خدا بخش لائبریری، پٹنہ میں اس وقت لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی ذاتی نگرانی میں ہوئی تھی. چونکہ والد کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے والدہ مرحومہ، جن کا انتقال دو ہزار پندرہ میں ہوا، کو بطور خاص گیا سے مدعو کیا گیا تھا. والد مرحوم نے احد فاطمی صاحب کے خطوط کی اصل کاپیاں خدا بخش لائبریری میں جمع کروا دی تھیں.
جئے پرکاش نارائن سے قربت
ٹریڈ یونین سرگرمی کے نتیجے میں ہی وہ جئے پرکاش نارائن سے قریب ہوۓ اور زندگی بھر ان سے وابستہ رہے. والد مرحوم آل انڈیا ریلوے مینس فیڈریشن جو کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین تنظیم ہوا کرتی تھی کے ایک سرگرم رکن تھے. جئے پرکاش نارائن کو اس تنظیم کا صدر بنانے میں انہوں نے اہم رول ادا کیا تھا. بعد کے دنوں میں جارج فرنانڈس تنظیم کے صدر بنے تو ان سے بھی ان کے ذاتی مراسم رہے. انیس سو چوہتّر میں ریلوے کی مشہور زمانہ ہڑتال میں، جس نے وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، والد مرحوم ایسٹرن زون کی کمان سنبھالنے والوں میں سے ایک تھے. قریب بیس دن تک وہ روپوش رہے اور ہم لوگوں کے گھر کی قرقی ضبطی ہوئی. پھر والد گرفتار ہوۓ اور ہڑتال ختم ہونے تک قریب ایک ہفتہ وہ جیل میں رہے. جیل سے باہر آنے کے بعد وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک ملازمت سے سسپینڈ رہے. جب تک ملازمت بحال ہوئی ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں عوام کے بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے تھے اور اپوزیشن لیڈران سمیت وہ تمام لوگ جن سے ذرا بھی مزاحمت کا اندیشہ تھا انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا. ہمارے گھر پر بھی پولیس کی ریڈ ہوئی گو ابّا جان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی. بات صرف گھر کی تلاشی پر ہی ختم ہو گئی. غالباً کچھ لوگوں کو حراست میں نہ لے کر ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی.
ریلوے مینس یونین پر کمیونسٹوں کا داؤ
آل انڈیا ریلوے مینس فیڈریشن، جو کہ ملک بھر کی تمام ریلوےمینس یونینس کی وفاقی جماعت تھی، بنیادی طور پر سوشلسٹ پارٹی کے تحت چلنے والی ایک فعال تنظیم تھی۔ والد مرحوم فیڈریشن کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ ملک کیسب سے بڑی ٹریڈ یونین ہونے کے ناطے حکومت کی اس پر کڑینظر تھی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کمیونسٹوں نے، جب وہ کانگریسی وزیراعظم اندرا گاندھی کے اتحادی تھے، اس پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ ایک دو جگہ انہیں کامیابی بھی ملی۔ فیڈریشن کی مرکزی لیڈرشپ حرکت میں آگئی اور کمیونسٹوںکے ذریعہ ہونے والے حملوں کو ناکام بنانے میں جٹ گئی۔ اسیسلسلے کی ایک میٹنگ والد نے گیا میں اپنے گھر پر رکھی جس میں یونین کے سرکردہ لیڈران نے تین دنوں تک مزاکرات کئے۔ یہ میٹنگ خفیہ نوعیت کی تھی جس کا علم مخصوص لوگوں کو ہی تھا۔ شاید ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ریلوے مینسیونین پر سوشلسٹوں کا دبدبہ باقی رہا۔ آگے چل کر سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر جارج فرنانڈس اس کے صدر بنے۔ والد نے فرنانڈس کے الیکشن جیتنے میں مدد کی اور جب انیس سو ستتر میں وہ جیل میں رہتے ہوئے جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر لوک سبھا کے لئے کھڑے ہوئے تو مظفر پور جاکر ان کے لئے کام بھی کیا۔ مگر جب فرنانڈس مرکز میں وزیر بنے تو وہ کبھی ان سے ملنے نہیں گئے. یہ روش انہوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ بھی برقرار رکھی جن میں بہار کے وزراء اعلیٰ کرپوری ٹھاکر اور رام سندر داس قابل ذکر ہیں. جب جب یہ لوگ اقتدار میں آئے والد ان سے ملنے نہیں گئے.
ان کی یہ رائے تھی کہ ریلوے یونین کا صدر ریلوے کے ہی کسیملازم کو ہونا چاہیے۔ فرنانڈس اور اس سے پہلے کے صدور عموماً باہر کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ اپنی اس سوچ کو وہ نافذ تو نہیںکرواسکے مگر اپنی ذات پر اس کا اطلاق ضرور کیا۔ انیس سو اناسی میں ریلوے کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے یونین سے استعفی دے دیا اور ساتھیوں کے اصرار کے باوجود کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش کا سفر
دسمبر انیس سو اکہتّر میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کی اردو آبادی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئی اور بنگالیوں، خصوصاً شیخ مجب کی مکتی باہنی نے اس سے پاکستانی فوج کے ذریعہ کئے گئے ظلم کا بدلہ لینا شروع کیا. جب وہاں سے قتل و غارت گری کی خبریں آنے لگیں تو بہار کے مسلمان بیچین ہو اٹھے. اس وقت جئے پرکاش نارائن نے براہ راست مداخلت کرتے ہوۓ ایک سات رکنی وفد تشکیلدیا جس نے اپریل اور مئی انیس سو بہتّر میں ایک مہینہ تک بنگلہ دیش میں گھوم گھوم کر نسل کشی سے دو چار وہاں کی اردو بولنے والی آبادی سے ملاقاتیں کیں اور واپس آ کر دنیا کو ان کے حالات سے آگاہ کیا. یہ وہی جئے پرکاش نارائن تھے جنہوں نے پاکستانیفوج اور “رضاکاروں” کے ذریعہ بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ملکوں ملکوں گھوم کر ان کے حق میںدنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا تھا. مگر جب بنگلہ دیش کے قیامکے بعد ان بنگالیوں نے بہاریوں کے خلاف وہی سب کچھ کرناشروع کیا جو اس سے پہلے ان پر بیت چکی تھی تو جئے پرکاش نارائن ایک بار پھر سے کھڑے ہو گئے. یہ اور بات ہے کہ اس بار انہیں نہ اندرا گاندھی کی حمایت ملی اور نہ ہی شیخ مجیب نے انہیں خاطر میں لایا. چنانچہ انہوں نے اپنے طور پر ایک وفد تشکیل دیا جس کے ایک رکن والد مرحوم بھی تھے. وفد کی قیادتنارائن ڈیسائی نے کی تھی جو کہ ایک معروف سماجی کارکن ہونے کے علاوہ مہاتما گاندھی کے سکریٹری مہادیو ڈیسائی کے بیٹےتھے. وفد کے تمام ہی ارکان مجاہدین آزادی تھے جن میں احد فاطمی (ایڈیٹر، پندرہ روزہ بھُودان تحریک)، محمود احمد ہنر (ایڈیٹر، ہاہنامہ شاہکار) اور گاندھین انسٹیٹیوٹ اوف سوشل اسٹڈیز، بنارس، کے پروفیسر طلعت کمال کے نام قابل ذکر ہیں.وفد میں ایک یا دو غیر ملکی نمائندے بھی شامل تھے.
سقوط ڈھاکہ کے وقت بہار اور یو پی میں شاید ہی ایسا کوئی خاندان ہوگا جس کے قریبی رشتہ دار سرحد کے اس پار نہ ہوں. چنانچہ جو سانحہ اس طرف کے لوگوں پر گزرا اس نے ہندوستان میں ہاہا کار مچا دیا. مجھے یاد ہے کہ جب والد مرحوم کے بنگلہ دیش جانے کی خبر پھیلی تو گھر پر دوستوں اور رشتہ داروں کا تانتا بندھ گیا. ہر ایک اپنے رشتہ دار کی خیریت جاننا چاہتا تھا اور اس کی مدد کرنا چاہتا تھا. ابّا جان نے تمام جاننے والوں کے نام اور پتے اکٹھا کئے اور ڈھاکہ اور کُھلنا وغیرہ کے کیمپوں میں جاکر ان سے ملاقاتیں کیں. واپس آکر انہوں نے وہاں کا آنکھوں دیکھا حال لکھا جس میں سابق مشرقی پاکستان میں اردو آبادی کی ببتا تفصیل سے بیان کی گئی تھی. وہ مضمون اس وقت کے مقبول رروزنامہ صداۓ عام (پٹنہ) اور پندرہ روزہ بھودان تحریک (بنارس) میں چھپا تھا. بعد میں وہ کئی جگہوں پر نقل بھی ہوا. انیس سو تیراسی میں میں نے والد اور والدہ کے ساتھ کراچی کا سفر کیا تھا جہاں ہمارے بہت سارے قریبی رشتہ دار آباد ہیں. مجھے اندازہ ہوا کہ کراچی کی بہاری آبادی میں ابّا جان کافی مقبول ہیں جس کی ایک وجہ غالباً ان کا سفر بنگلہ دیش تھا کیونکہ وہ ان کی مشکل گھڑی میں ان تک پہنچے تھے.
بودھ گیا کا بھومی آندولن
ستّر اور اسّی کی دہائی میں بودھ گیا میں بھومی آندولن چلا جس کی قیادت جئے پرکاش نارائن کی قائم کردہ تنظیم چھاتر یواسنگھرش واہنی کر رہی تھی۔ یہ تحریک بودھ گیا مٹھ کے مہنت جو کہ کانگریس کا ایم ایل اے تھا کے خلاف تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہزاروں ایکڑ بے نامی زمین اپنے قبضے میں لے رکھی تھیاور کھیت مزدوروں کو بندھوا بنا رکھا تھا۔ جئے پرکاش نارائن کے انتقال اور جنتا پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد جو تھوڑے سے سوشلسٹ اس میں بچے تھے انہوں نے ابا جان کو اس آندولن کیسربراہی سونپی۔ مجھے یاد ہے راجیہ سبھا کے ممبر سریندرموہن سنگھرش واہنی کے کارکنوں کو لے کر گھر آئے اور کہا کہ آپ ان کی سرپرستی کریں۔ چونکہ بودھ گیا مٹھ کے مہنت کو ریاستی سرکار کی پشت پناہی حاصل تھی اس لئے سنگھرش واہنی کے لڑکے اور لڑکیوں پر آئے دن مقدمے لادے جاتے تھے۔ گیاشہر میں مقامی وکیلوں، جن میں مسلمان وکیلوں کی بڑی تعداد تھی، نے لیگل ایڈ ٹیم بنا رکھی تھی۔ ابا جان کے توسط سے وہ لوگ سنگھرش واہنی کے کارکنوں کا مقدمہ مفت میں لڑا کرتے تھے۔ یہ آندولن کئی سال چلا اور آخر کار بودھ گیا مٹھ کے مہنت کو ہتھیار ڈالنا پڑا۔ والد مرحوم نے اس میں کلیدی رول ادا کیا. جب تک یہ آندولن چلا سنگھرش واہنی کے کارکنوں کے لئے ہمارا گھر ایک مرکز بنا رہا.
نکسلی لیڈر کو پناہ
اسّی اور نوّے کی دہائی میں بہار کے جہان آباد علاقے میں ایکنکسلائٹ لیڈر ڈاکٹر ونین کا بہت چرچہ تھا۔ یہ لکھنئو کے رہنے والے تھے اور مرکزی بہار، جو ان دنوں نکسلائٹ مومنٹ کا گڑھ مانا جاتا تھا، میں اپنی انقلابی تحریک چلا رہے تھے۔ پولیس نے ان کی گرفتاری پر ہزاروں روپے کے انعام کا اعلان رکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ونین کا اپنے انقلابی ساتھیوں سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مارے جا سکتے تھے۔ ایسے میں ابا جان ان کی مدد کو آئے اور انہیں کئیمہینے تک اپنے گھر میں پناہ دی۔ وہ ڈاکٹر ونین کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے، نہ ہی ان کی فکر سے اتفاق کرتے تھے پھر بھیڈھونڈھ کر ان سے ملے اور گھر لے کر آئے۔ اس وقت ڈاکٹر ونین کے پاس ایک مسلمان محلے سے زیادہ کوئی محفوظ جگہ نہیں ہو سکتی تھی۔ پولیس کو یا ان کے مخالفین کو کبھی بھی ان کا سراغ نہیں مل سکا۔ اتنا ہی نہیں ابا جان نے انہیں پٹنہ میں میرا اور میرے بڑے بھائی وقار انور کا پتہ بھی دیا کہ کبھی ضرورت پڑے تو ان میں سے کسی کے گھر چلے جانا، گو کبھی اس کی نوبت نہیںآئی۔
ناگا باغیوں سے مذاکرات کی کہانی
ساٹھ کی دہائی میں مرکزی حکومت نے جئے پرکاش نارائن کو ناگا باغیوں سے امن مزاکرات کی ذمہ داری سونپی۔ وہ مستعدی سے اس کام میں لگ گئے۔ مختلف سطحوں پر رابطے قائم کئے اور حکومت کو اپنی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہے۔ مگر کچھ عرصہ تک کام کرنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں وہ تعاون نہیں مل رہا ہے جس کی امید لے کر انہوں نے مزاکرات شروع کئے تھے۔ چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اپنے آپ کو اس سے الگ کر لینا چاہیے۔ حتمی فیصلہ لینے سے پہلے انہوں نے شیخودیورا آشرم میں اپنے قریبی ساتھیوں کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا۔ ان ساتھیوں میں والد مرحوم بھی شامل تھے۔ ان کے مطابق جئے پرکاش نارائن نے دو دن تک چلے مشورے میں بہت تفصیل سے اپنی کوششوں پر روشنی ڈالی اور با اختیار لوگوں کے عدم تعاون کے نتیجے میں جو مایوسی ان کے ہاتھ آئی تھیاس کا اظہار بھی کیا۔ اس میٹنگ کے بعد ہی جئے پرکاش نارائن نے خود کو ناگا مزاکرات سے علاحدہ کرنے کا اعلان کیا۔ (شیخودیورا آشرم بہار کے نوادہ ضلع میں واقع ہے۔ اسے انیس سوباون میں جئے پرکاش نارائن نے قائم کیا تھا۔ انیس سو بیالیسمیں جب وہ ہزاری باغ جیل سے بھاگے تھے تو اسی علاقے میںچھپے تھے۔)
گیا شہر میں مرزا غالب کالج کا قیام
انیس سو انہتّر میں گیا کالج کے شعبئہ اردو میں غالب کی صد سالہ برسی دھوم دھام سے منائی گئی. مگدھ یونیورسٹی کے ایک اسٹاف محمّد سمیع نے غالب کا ایک پورٹریٹ بنایا تھا جس کی رونمائی اس موقع پر کی گئی تھی. اسی موقع پر یہ اعلان بھی ہوا کہ گیا شہر میں غالب کے نام سے ایک مسلم اقلیتی کالج قائم کیا جائے گا. اس اعلان کے سال بعد بعد “مرزا غالب کالج” کا افتتاح عمل میں آیا. والد مرحوم اس کے کلیدی بنیاد گزاروں میں تھے. اس سلسلے میں وہ ایک قصّہ سنایا کرتے تھے. جب مگدھ یونیورسٹی میں کالج کے افیلیشن کی درخواست دی گئی تو اس وقت کے وائس چانسلر جس کا تعلق غالباً آر ایس ایس سے تھا نے اعلانیہ طور پر ایک مسلم اقلیتی کالج کو افیلیشن دینے سے انکار کر دیا. والد نے جئے پرکاش نارائن سے پیروی کی. انہوں نے گورنر، بہار، جو کہ ریاست کی تمام یونیورسٹیز کا چانسلر ہوتا ہے، کو خط لکھ کر مرزا غالب کالج کو افیلیشن دیئے جانے کی سفارش کی. اس طرح گورنر کے حکم پر مگدھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا اور ایک نیا مسلم اقلیتی کالج وجود میں آسکا. جئے پرکاش نارائن کے ذریعہ لکھے گئے خط کی کاپی والد مرحوم نے خدا بخش لائبریری میں جمع کروا دی تھی.
انیس سو چورانوے میں ان کے انتقال سے چند ہفتہ پہلے غالب کالج کا پچیس سالہ یوم تاسیس منایا گیا. اس وقت اس کے بانیوں میں وہی ایک زندہ تھے. انہیں خاص طور پر مدعو کیا گیا مگر خرابئی صحت کی بنا پر وہ شرکت نہیں کر سکے. ان کے انتقال پر غالب کالج میں ایک دن کی چھٹی کی گئی اور تعزیتی جلسے کا انعقاد بھی کیا گیا.ہادی ہاشمی ہائی اسکول جس کی مجلس عاملہ کے وہ صدر تھے وہاں بھی ایک دن کی چھٹی کی گئی. ایک تعزیتی جلسہ پٹنہ کے گاندھی سنگھرالیہ میں بھی ہوا جس میں بہار کے سابق وزیراعلیٰ رام سندر داس، جن سے ان کے بہت قریبی تعلقات تھے اور جو اکثر ہمارےگھر آیا کرتے تھے، اور راجدھانی کی کئی اہم شخصیتوں نے شرکت کی. ان کے انتقال کی خبر آل انڈیا ریڈیو کے مقبول ریاستی پروگرام “پرادیشک سماچار” سے نشر ہوئی اور خبر رساں ادارے پی ٹی آئی اور یو این آئی نے خبر چلائی. پٹنہ کے اردو، انگریزی اور ہندی اخبارات نے نمایاں طور پر ان کے انتقال کی خبر شائع کی. روزنامہ قومی تنظیم نے ان پر اداریہ بھی لکھا.
اردو زبان سے لگاؤ
آزادی کے بعد اردو زبان پر جو حملے ہوۓ اس کا مقابلہ بہار کے مسلمانوں نے بہت کامیابی سے کیا یہاں تک کہ انیس سو اکاسی میں کشمیر کے بعد بہار ملک کی دوسری ریاست تھی جہاں اردو کو ہندی کے علاوہ سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا. اپنی مادری زبان کو بچانے کے لئے جن ہزاروں، لاکھوں لوگوں نے مختلف سطحوں پر تحریکیں چلائیں والد مرحوم اس کا بھی حصّہ رہے. پروفیسر عبد المغنی جو کہ بہار ریاستی انجمن ترقئی اردو کے صدر تھے نے ایک موقعہ پر خط لکھ کر ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا تھا. گو عام طور پر والد مرحوم ادبی نشستوں میں شریک نہیں ہوتے تھے مگر شہر اور بیرون شہر کے بیشتر شاعروں اور ادیبوں سے ان کے ذاتی مراسم تھے. معروف افسانہ نگار اور “آہنگ” اور “مورچہ” کے ایڈیٹر کلام حیدری کے یہاں اہل علم کی جو نشستیں ہوا کرتی تھیں وہ اس کا حصّہ ہوتے تھے. وہ بہت اچھی زبان بولتے تھے اور اکثر صبح کے وقت لحن کے ساتھ اساتذہ کا کلام پڑھا کرتے تھے.
والد مرحوم اپنی دلچسپ گفتگو اور حاضر جوابی کے لئے بھی جانے جاتے تھے. ٹریڈ یونین لیڈر ہونے کے ناطے ان کا زیادہ تر وقت ریلوے کے عام ملازمین، خاص کر قلی کباڑیوں کے بیچ گزرتا تھا مگر اس کا اثر ان کی زبان پر نہیں پڑا تھا. پروفیسر سید محمّد حسنین جو کہ صنف انشائیہ کے مؤجد کے طور پر جانے جاتے تھے اور حسنین عظیم آبادی کے قلمی نام سے لکھتے تھے نے اپنے انشائیوں کا مجموعہ”نشاط خاطر” پیش کرتے ہوۓ اس پر لکھا تھا: “پیارے قیوم اثر کے لئےجن کی فکر کی رعنائی اور تکلّم کی شیرینی انشائیہ سے زیادہ اثر خیز ہے”. وہ سطحی باتوں سے بھی پرہیز کرتے تھے. میرے بچپن کا واقعہ ہے. ریلوے ملازمین کا ایک جلوس نکلا تھا. میں والد کے ساتھ ایک گاڑی میں ان کی گود میں بیٹھا تھا. زبردست نعرے بازی ہو رہی تھی. کچھ لوگ نعروں میں ریلوے کے افسروں کو اور ان کے گھر والوں کو گالیاں دینے لگے. میں نے دیکھا والد بے چین ہو گئے. پاس بیٹھے لوگوں سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے. ان افسروں سے ہماری ذاتی لڑائی تو نہیں اور ان کے گھر والوں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے. ہم اُنہیں کیوں گالیاں دے رہے ہیں.
جنتا دل کی تشکیل سے پہلے کرپوری ٹھاکر کا گھر آنا
بہار کے سابق وزراء اعلیٰ کرپوری ٹھاکر اور رام سندر داس والدمرحوم کے ہم عصروں میں تھے اور دونوں ہی ان کی بے حد عزت کرتے تھے. اس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انیس سو چھیاسی-ستاسی میں جب کرپوری ٹھاکر نے پرانے سوشلسٹوں کو جمع کرنے کی مہم چھیڑی اور جنتا پارٹی کے مختلف دھڑوں اور لوک دل کو ملا کر ایک نئی پارٹی کی تشکیل کا عمل شروع کیا تو وہ گیاائے اور والد مرحوم سے ملنے گھر پہنچے. اس ملاقات میں دونوں دوست سوشلسٹ پارٹی کے شاندار ماضی کو یاد کرتے رہے. کرپوری ٹھاکر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سارے سوشلسٹ پھر سے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں. اس وقت والد مرحوم ریلوے کی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے اور جنتا پارٹی کے ایک دھڑے کے نائب صدر تھے. بساون سنگھ اس کے صدر تھے اور رام سندر داس جنرل سیکریٹری. انیس سو اُناسی میں جب کرپوری ٹھاکر کی سرکار گری تو اس کے بعد رام سندر داس بہار کے وزیر اعلیٰ بنے اور جنتا پارٹی کے ایک قدآور لیڈر بساون سنگھ جنہیں کرپوری ٹھاکر نے نظر انداز کیا تھا وزارت میں شامل ہوۓ. کرپوری ٹھاکر نے والد سے کہا کہ آپ ان دونوں سے کہیں کہ ہم لوگ پچھلی باتیں بھول جائیں اور آگے کی طرف دیکھیں.
کرپوری ٹھاکر کی کوششیں رنگ لائیں. جنتا دل کے نام سے ایک کل ہند پارٹی وجود میں آگئی. وی پی سنگھ کانگریس چھوڑ کر اس پارٹی میں شامل ہوۓ اور انیس سو نواسی میں وزیراعظم بنے. ریاستی سطح پر بساون سنگھ، رام سندر داس اور تمام قابل ذکر سوشلسٹ اس میں جمع ہو گئے. مرکز کی طرح بہار میں بھی جنتا دل کی سرکار بنی. مگر افسوس کہ خود کرپوری ٹھاکر یہ سب نہیں دیکھ سکے. فروری انیس سو اٹھاسی میں ان کا اچانک انتقال ہو گیا. لالو یادو جو اس وقت تک ان کے زیر سایہ چل رہے تھے ان کے حامیوں کے لیڈر بن کر ابھرے. انیس سو نوّے کے ریاستی انتخاب کے بعد لالو نے رام سندر داس کو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شکست دی. سمجھوتے کے طور پر رام سندر داس جنتا دل کی بہار شاخ کے صدر بناۓ گئے. انہوں نے والد مرحوم کے منع کرنے کے باوجود انہیں گیا ضلع کا صدر بنایا. مگر یہ گاڑی بہت دن نہیں چل سکی. لالو اور رام سندر داس کے بیچ ٹکراؤ جاری رہا. یہاں تک کہ اگلے دو سے تین سال میں موخرالذکر پارٹی سے الگ ہو گئے. والد نے بھی ان کے ساتھ ہی پارٹی چھوڑ دی. تب تک ان کی صحت گر چکی تھی. آہستہ آہستہ وہ سرگرم سیاست سے کنارہ کش ہوتے گئے. ویسے بھی وہ ٹریڈ یونین کے آدمی تھے، انتخابی سیاست ان کا میدان نہیں تھا. بساون سنگھ اور رام سندر داس کا ساتھ نبھانے کے لئے وہ اس میں کودے تھے. نومبر انیس سو چورانوے میں جب ان کا انتقال ہوا تو وہ مکمّل طور پر گوشہ نشیں ہو چکے تھے. اسی سال وہ اپنے دوسرے حج سے واپس لوٹے تھے. آخر کے دو مہینے دل کا دورہ پڑنے کے بعد وہ بسترِ علالت پر رہے.
ممتاز مفتی کی ‘لبیک’ اور سفر حج
والد مرحوم معاملات میں کھرے تھے اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے پاسدار۔ کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ شاید اسیوجہ سے سماج میں وہ نیک نام تھے اور لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ مگر دیندار وہ بالکل نہیں تھے نہ ہی کبھی صوم و صلوٰۃ کیپابندی کی۔ عیدین کی نماز کے سوا کبھی مسجد نہیں جاتے تھے لیکن تقدیر نے ان کے حصے میں ایک نہیں دو دو حج لکھا تھا۔ والدہ مرحومہ، جو ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں،نے ریٹائرمنٹ کے بعد حج پر جانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ وہ ابا جان کو ساتھ لے کر جانا چاہتی تھیں۔ مگر وہ اس کے لئے تیارنہیں تھے۔ امی جان کے یہ کہنے کے بعد کہ وہ اکیلی کیسےجائیں گی وہ تھوڑا نرم پڑے پھر بھی حامی نہیں بھری۔ اس بات کی خبر جب میرے بڑے بھائی وقار انور کے دوست مرحوم محمود عالم صاحب جو خدا بخش لائبریری سے منسلک تھے کو ملی تو انہوں نے ان کے لئے ممتاز مفتی کی کتاب “لبیک” بھجوائی۔ افسانوی انداز میں لکھے اس سفر نامۂ حج کو پڑھتے پڑھتے ابّا جاننے حج پر جانے کا فیصلہ کر لیا مگر نیت ان کی پھر بھی اپنیشریک حیات کے شریک سفر کی رہی۔ میں ان دنوں دبئ میںتھا۔ مجھے والدہ کے حج پر جانے کی اطلاع دیتے ہوئے خط میںلکھا “اور یہ خادم بھی ساتھ جا رہا ہے”. دورانِ سفر بھی ایک دو لوگوں سے مذاق کیا کہ آپ لوگ حج پر کیوں جا رہے ہیں ان پیسوں کا کوئی بہتر استمعال کر لیتے۔ مگر جب حرم شریفپہنچے تو ان پر ایک کیفیت طاری ہوئی اور وہ تائب ہوئے۔ واپس آکر ان لوگوں سے معافی مانگی جن سے دورانِ سفر مذاق کیا تھا۔ محمود عالم صاحب جنہوں نے “لبیک” بھجوائی تھی ان کے لئے اور ایک اور کرم فرما جس نے پاسپورٹ کے سلسلے میں مدد کیتھی کے لئے عمرہ کیا۔ سفر کے دوران نماز کی جو پابندی شروع کی تھی واپس آکر اس پر قائم رہے۔ مگر بڑھاپے کے مسلمان نہیںبنے۔ نہ اپنا حلیہ تبدیل کیا، نہ ہی مصلہ لے کر بیٹھ گئے۔ جس ڈھب سے زندگی جی تھی اس پر قائم رہے۔
والدہ مرحومہ نے حج کا ارادہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم کے بل پر کیا تھا مگر ٹھیک وقت پر حکومت کی پالیسی تبدیل ہو گئیاور ریٹائرمنٹ کی عمر میں دو سال کی توسیع ہو گئی۔ چونکہ حج پر جانے کا ارادہ کر چکی تھیں اس لئے چلی ہی گئیں۔ دو سال بعد جب ریٹائر ہوئیں تو اپنے والد کی طرف سے حج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ابا جان کو صرف دو سال کے وقفے سے ایک اور حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اپنی والدہ خدیجتہ الکبریٰ کی طرف سے حج کیا۔ انہیں وہ بے حد عزیزتھیں۔ اپنی کتاب “پیام دوست” انہوں نے ان کے نام ہی معنون کیتھی اور مندرجہ ذیل نظم لکھی تھی جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ان کی اپنی ہے:
ائے میری نظر سے دور
نغمہ ہائے تر سے دور
آہ کارگر سے دور
حد نامہ بر سے دور
دور ہر اثر سے دور
کچھ تجھے خبر بھی ہے
مجھ پہ کیا گزرتی ہے
ملک کا بٹوارہ اور ان کا اٹل فیصلہ
تیس اور چالیس کی دہائی میں ہندوستانی مسلمان واضح طور پر دو دھڑوں میں بنٹے ہوۓ تھے. ایک دھڑا مسلم لیگ کا حامی تھا جبکہ دوسرا کانگریس اور سوشلسٹ کا. پہلا دھڑا مسلم لیگی اور دوسرا “نیشنلسٹ” مسلمان کہلاتا تھا. والد بتاتے تھے کہ جب وہ کھادی کا کرتہ پائجامہ پہن کر گیا میں اپنے گھر واقع کریم گنج، جو کہ ایک مسلمان محلّہ ہے سے نکل کر چھتہ مسجد یعنی شہر کا صدر مقامجاتے تھے تو راستے میں مسلمان محلوں سے گزرتے ہوۓ ان پر فقرے کسے جاتے تھے اور اکثر ان کے کرتے کھینچے جاتے تھے. مگر اس سے انہیں کبھی خفّت محسوس نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنی فکر کے تئیں اور بھی پرعزم ہوتے تھے. انیس سو سینتالیس کے آس پاس وہ پٹنہکے مضافات میں واقع کھگول علاقے کی ایک مسلم ریلوے کالونی میں رہتے تھے. کالونی کے مسلمانوں نے نیشنلسٹوں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا. ایسے ہی ایک نیشنلسٹ مسلمان کے گھر میں ایک بچے کی موت ہو گئی. بائیکاٹ کا یہ اثر تھا کہ کالونی کا کوئی بھی شخص پورسہ دینے نہیں آیا، یہاں تک کہ بچے کو قبرستان لے جانے کے لئے پٹنہ شہر سے غیر مسلم دوستوں کو بلوانا پڑا. جب بٹوارہ ہوا تو اس کالونی میں صرف دو مسلمان خاندان بچے. باقی سب پاکستان کوچ کر گئےتھے.
بٹوارے کے وقت سرکاری ملازمین کو تین آپشنز دیے گئے تھے. ایک تھا ہندوستان میں رہنا ہے، دوسرا پاکستان جانا ہے اور تیسرا بعد میں فیصلہ کریں گے. والد نے پہلے آپشن پر نشان لگایا. ان کے ایک ہندو افسر نے انہیں بلوایا اور ازراہ ہمدردی کہا کہ تم اپنا ہاتھ کیوں کاٹ رہے ہو. بعد میں فیصلہ کرنے کا آپشن اپنے پاس رکھو. والد نے اس افسر کو جو جواب دیا تھا وہ اسے اکثر دہرایا کرتے تھے: “میں نے اسکول میں تاریخ کی کتاب میں پڑھا تھا کہ اکبر کے بادشاہ بنتے ہی اس کی ریاست پر حملہ ہوا اور دشمن کی فوج قلعہ کے بہت قریب آکر کھڑی ہو گئی. اکبر کے سپہ سالار بیرم خاں نے مشورہ دیا کہ جنگی حکمت عملی کے تحت ہمیں تھوڑا پیچھے ہٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے. مگر تیرہ سالہ بادشاہ نے پورے عزم اور اعتماد کے ساتھ کہا ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے. اس کے بعد یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اکبر کو فتح نصیب ہوئی. میرا بھی یہ فیصلہ ہے کہ میں اپنی زمین نہیں چھوڑوں گا.”
[مصنف افسانہ نگار اور صحافی ہیں. انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ٹائمز اوف انڈیا، پٹنہ سے کیا تھا. بیس سال تک خلیجیممالک کے انگریزی اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد ان دنوں صحافت کی تدریس سے وابستہ ہیں اور گریٹر نوئیڈا میںسکونت اختیار کر رکھی ہے]
+ There are no comments
Add yours