حضرت مولانا شاہ سلیمان قادری پھلواروی اپنے عہد کے نہایت مشہور اورمقبول بزرگ ، واعظ،صاحبِ دل صوفی،صاحبِ ٖفکر رہنما گزرے ہیں ۔از !
آپ کا نسب اور خاندان
پھلواری شریف صوبہ بہار کی ایک چھوٹی سی مگر بیحد معزز و مشہور بستی ہے۔یہاں کی خاک سے بڑے علماء صوفیا،اور اہل علم ہر دور میں اٹھتے رہے ہیں ،یوں تو یہاں کا اصل خاندان جس میں حضرت شاہ عماد الدین قلندر ؒ اور تاج العارفین شاہ مجیب اللہ پھلواروی ؒ جیسے بزرگ ہوئے ہیں ، یہ خاندان جعفری زینبی ہےً جبکہ شاہ سلیمان پھلواروی کے والد یہاں ترک وطن کر کے آ بسے تھے
آپ کے جد امجد بہار کے پہلے مسلم فاتح امام محمّد تاج فقیہ تھے جو کہ نسباً زبیری الہاشمی تھے ! یہ خاندان اپنے مسکن اصلی منیر سے نکل کر پہلے چھپرہ گیا ، پھر کریم چک، وہاں سے حکیم آباد اور بالآخر پھلواری میں مقیم ہوا
http://localhost/codeenddesign/syed-suleman-nadvi/
مولانا شاہ سلیمان کی والدہ بابا فرید کی اولادمیںسے تھیں ، انکا تعلّق اس شاخ سے ہے جو شیخ سلیم چشتی سے وابستہ ہے، یعنی فتح پور سیکری کے فریدی فاروقی خاندان کی ایک شاخ پھلواری آکر آباد ہوئی۔
شاہ سلیمان کی دادی عباسی ہاشمی تھیں نیز آپکے دادا کی اور نانا کی ننیھال شیخ حسام الدین مانیکپوری کے خاندان میں تھی جو کریم چک میں مقیم ہے.!
اساتذہ
ابتدائی تعلیم اپنے ماموں شاہ نعمت مجیب سے حاصل کی بعدہ لکھنؤ میں مولانا عبد الحی فرنگی محلی سے ، اور پھر سہارنپور میں مولانا احمد علی محدث اسکے بعد دہلی جاکر مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی سے اسکے علاوہ مولانا مظہر نانوتوی ، مفتی جمیل صاحب بلگرامی ، مفتی عباس لکھنوی ،حکیم عبد العزیز دریا آبادی وغیرہ سے علم کا حصول جاری رہا ، صرف احادیث کی سند آپ نے ساٹھ ستر حضرات سے حاصل کی ۔
طریقت
اول آپ شاہ علی حبیب نصر پھلواروی سے قادریہ سلسلے میں بیعت ہوئے ،انہی شاہ صاحب کی چھوٹی بیٹی سے آپ کا عقد بھی ہوا۔ اسکے علاوہ متعدد بزرگوں سے آپ نے استفادہ کیا مثلاً ابواالعلائ سلسلہ شاہ وحید الحق سے ،بانسہ کا قادریہ سلسلہ اپنے استاد مولانا عبد الحی فرنگی محلی سے حاصل کیا ، قادریہ مجددیہ اویس وقت مولانا شاہ فضل رحمان گنج مراد ابادی سے ، چس چشتیہ صابریہ سلسلہ شاہ امداد اللّٰہ مہاجر مکی سے اور اخر میں آپ کہتے تھے کہ اب تو میں چشتی ہی چشتی ہوں ! آپ کے دیگت سولہ سلسلہ کے شجرات کی تفصیل سلسلتہ الذہب میں مذکور ہے !
—-
حضرت شاہ سلیمان سرسیداحمد خاں کی تعلیمی تحریک کے پرزور معاون اورمسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی روح و رواں تھے۔ علماء اورصوفیاء کے خانوادے سے پہلی موثر آوازحضرت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی ہی کی تھی جس نے سرسید کی تحریک کوقوت بخشی۔
آپ علی گڑھ ایم اے ا و کالج کے ٹرسٹی بھی رہے اور اس کالج کویونیورسٹی بنانے کی مہم میں بھی آپ کی شخصیت ایک بڑا سہارا تھی ۔ انجمن حمایت اسلام لاہور، انجمن اسلامیہ پٹنہ، بزمِ صوفیا،جمعیت العلماء بہار ،آل انڈیا مسلم کانفرنس،اورآل انڈیا مسلم لیگ غرض کہ ہندوستان میں کوئی تحریک اورکوئی جدوجہد ایسی نہ تھی جس میں ان کی شخصیت موجبِ تقویت اور راہنما نہ سمجھی جاتی ہو۔
آپ مجلس ندوۃ العلماء کے بانیان میں سے تھے ،،ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس منعقدہ کانپور میں اپ نے ہی یہ تجویز پیش کی تھی کہ فقہ ، تاریخ و تصوف اور دیگر علوم پر نظر ثانی کی جائے اور ان کو از سر نو مدون کیا جائے ۔یہ پوری تقریر سرسید ؒ نے اپنے اخبار تہذیب الاخلاق (مؤرخہ یکم محرم 1213ھ) میں شائع کی۔
آپ تمام مسلک و خیال کے حلقوں میں یکساں مقبول و محبوب تھے اور آپ کی حیثیت ان سب کے لئے نقطۂ وصل کی تھی۔
آپ نے ١٥٠ سال پہلے سیرت نبوی کی تحریک شروع کی اور یہ اپ کی تحریک تھی جس کی وجہ سے سیرت کے جلسے اور تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا اور شمار لوگوں کو سیرت نبوی کے باقاعدہ مطالعہ کی طرف متوجہ کیا۔
شاہ سلیمان نہایت شیریں بیان اور بزلہ سنج تھے -ایک مرتبہ رنگون میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ تھا، مولویوں نے کانفرنس والوں پر کفر کا فتوٰی لگا رکھاتھا ،شاہ صاحب نواب محسن الملک کے ساتھ اس جلسہ میں مدعو تھے، تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا ۔سنا ہے کہ یہاں کے مولویوں نے کانفرنس والوں پر کفر کا فتوٰی لگا رکھاہے ،جن میں شاید میں بھی داخل ہوں مگر غور کیجئے تو نواب محسن الملک تو مہدی (ہدایت یافتہ)( اصل نام مہدی علی تھا)ان کو کون مسلمان کافر کہے گا اور مجھ پر توکفر کا فتوٰی لگ ہی نہیں سکتا کہ خود اللہ تعالٰی کی شہادت ہے
وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا
(سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا بلکہ شیطان نے کفر کیا )
سامعین اس نکتہ سے بہت محظوظ ہوئے اور مولویوں کی فتوٰی گری کا ان دو چٹکلوں ہوا ہوگی!
وحدت الوجود پرآپ کا ایک شعر:
جو اپنے آپ کو دیکھا_____ تو یہ کھلا رازِ نہاں
اسی کا جلوہ ہے________ اپنا نمود وبود نہیں
حضرت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی کے چار صاحبزادے تھے۔
مولانا شاہ حسن میاں
،مولانا شاہ حْسین میاں
،مولانا شاہ غلام حسنین چشتی
اورمولانا شاہ جعفر ندوی پھلواروی
اورایک صاحبزادی تھیں،جن کی یادگارمولانا شاہ عزالدین ندوی پھلواروی تھے۔جو پہلے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں ادیب و مفسر تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں ان کو شاہی مسجد لاہورکے خطیب و مفتی کی حیثیت سے بلوا لیا تھا۔بعدہٗ مدرسہ شمس الہدٰی پٹنہ،میں شیخ الحدیث رہے۔متعدد کتابیں اردو اور عربی میں ان کے قلم سے نکلیں۔
مولانا شاہ حسن میاں نے جوانی میں انتقال کیا۔اس کم عمری میں ہی انہوں نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔مولانا حسن میاں کے صاحبزادے مولانا حسن مثنٰی ندوی علمی ادبی،سیاسی اور مذہبی دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں۔
مولانا شاہ حسین میاں کی زندگی سراپا جدوجہد تھی۔ وہ عہدِ خلافت سے لے کرمسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور قیام پاکستان کے فیصلے تک مسلسل مصروف رہے۔آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین میں ان کا شمارتھا،وہ خوش بیان خطیب اورسیاسی رہنما تھے۔وہی حضرت مولانا سلیمان پھلواروی کے جانشین اورصاحبِ سجادہ بھی یہی تھے۔
مولانا حْسین میاں کی وفات کے بعدحضرت مولانا شاہ غلام حسنین صاحب چشتی زیبِ سجادہ ہوئے اور ہندوستان میں ہی رہے۔ان کے قلم سے متعدد علمی،ادبی، تحقیقی مضامین نکلے۔تصانیف میں ”خاتمِ سلیمانی“اور”شمس المعارف“کوخاص شہرت حاصل ہوئی۔
ان کےچھوٹے بھائی حضرت مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی بٹوارے کے وقت کپور تھلہ میں تھے۔ اورمسلمانوں کا قافلہ جب پاکستان آیا تو وہ قافلے کے ساتھ لاہورتشریف لے گئے،وصاحب فکرونظر بزرگ تھے۔کم و بیش چالیس کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کا انتقال١٩٨٣ میں کراچی میں ہوا
+ There are no comments
Add yours