حضرت مولانا عثمان غنی ؒ شرفاء کی قدیم آبادی دیورہ ضلع گیا کے ایک خوش حال زمیندار خاندان میں 15 رجب 1313ھ مطابق یکم جنوری1896ء روز چہار شنبہ کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم گھر پر مکمل کرنے کے بعد ذیقعدہ1328ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ 1334-35ھ میں دورۂ حدیث میں شریک ہوئے، لیکن رجب میں گھر چلے آئے، اس لئے امتحان میں شریک نہ ہو سکے، پھر1335-36ھ میں دوبارہ دورۂ حدیث میں شرکت کرکے فراغت حاصل کی، اس طرح آپ نے دو سال دورۂ حدیث میں شرکت کی۔
اس وقت دارالعلوم دیوبند محض ایک درس گاہ نہ تھی اسے ہندوستان کے انقلابی اور حریت پسند علماء کے مرکز کی حیثیت بھی حاصل تھی، چنانچہ دیوبند میں قیام کے دوران آپ ک اس وقت کے مشہور انقلابی عالم مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی قربت اور سرپرستی حاصل ری، دراصل مولانا محمد عثمان غنی کے چھوٹے چچا مولانا شاہ ولایت حسین (فاضل دیوبند) کے مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے نہایت گہرے مراسم تھے، اس وجہ سے مولانا سندھی آپ پر خاص توجہ اور شفقت فرماتے تھے،جب مولانا سندھی نے’’ مؤتمر الأنصار‘‘ اور’’جمعیتہ الأنصار‘‘ میں مراد آباد نیز1912ء میں میرٹھ میں تنظیموں کے اجلاس میں پیش پیش رہے، جنگ طرابلس اور جنگ بلقان کے زمانے مین دارالعلوم دیوبند کا جو وفد بہار میں آیا تھا اس کے ایک رکن مولانا بھی تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان ایک تاریخی موڑ پر کھڑا تھا، ا نگریزی داں قائدین انگریز حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تدبیروں میں مصروف تھے، دوسری طرف علماء کی جماعت حریت و آزادی کا پرچم بلند کئے ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دے رہی تھی۔ ریشمی رومال کی تحریک کے تانے بنے جا رہے تھے، بوریہ نشیں اور درویش صفت علماء درس گاہوں ، خانقاہوں اور حجروں سے حریت و آزادی کی روشنی پورے ملک میں پھیلا رہے تھے، انگریز حکمرانوں کی ا ن پر کڑی نگاہ تھی، بہت سارے گرفتار کر لئے گئے تھے، جو بچ رہے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تحریک کو کن خطوط پر آگے بڑھایا جائے، تقریباً یہی زمانہ تھا جب حضرت مولانا عثمان غنی تعلیم کی تکمیل کے بعد شعبان 1336ھ مطابق1918ء کو وطن واپس آئے اور یہاں آپ کی ملاقات ہندوستان کے مشہور عالم دین، سیاستداں اور مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے ہوئی، ملاقات کا یہ سلسلہ پہلے ہی سے تھا، مولانا محمد سجادؒ کے پیش نظر بہت سے منصوبے تھے، جن کو بر وئے کار لانے کے لئے انہیں مناسب افراد کی تلاش تھی، ان کی مردم شناس نظروں سے حضرت مولانا عثمان غنی ؒ کی شخصیت میں پنہاں گونا گوں جوہر پوشیدہ نہ رہ سکے۔
مولانا محمد سجادؒ نے آپ کو اپنی رفاقت کے لئے چن لیا اور یہ انتخاب غلط نہ تھا، بعد میں آپ ان کے معتمد و مشیر اور دست راست بن گئے،مولانا آزادی وطن کی عملی جدو جہد سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے استحکام اور بقاء کے لئے ایک ایسی تنظیم کے لئے کوشاں اور فکرمند تھے، جو کتاب و سنت سے ماخوث ہو اور مسلم معاشرہ میں اسلامی قوانین کے اجراء و نفاذ کے لئے پوری طرح ذمہ دار ہو، بالآخر ان کی کوششیں بارا ٓور ہوئیں اور19شوال1339ھ کو مولانا ابوالکلام آزادؒ کی صدارت میں پٹنہ میں جمعیتہ علماء بہار کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا اور اس اجلاس میں امارت شرعیہ بہارو اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا۔ صوبہ ٔ بہار کی مشہور و ممتاز خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ بدر الدینؒ امیر شریعت اور مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نائب امیر شریعت منتخب ہوئے۔ 9ارکان پر مشتمل مجلس شوریٰ تشکیل پائی۔ جس کے ایک رکن مولانا محمد عثمان غنی بھی تھے اور یہ ارکان میں سب سے کم عمر تھے، پہلی مجلس شوریٰ کے نو ارکان یہ تھے۔ حضرت مولانا شاہ محمد محی الدینؒ، جو بعد میں امیر شریعت ثانی ہوئے، حضرت مولانا عبد الوہابؒ دبھنگہ، حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ، حضرت مولانا قاضی شا ہ محمد نورالحسنؒ، حضرت مولانا عبدالاحدؒ، جالہ ، دربھنگہ، حضرت مولانا فرخند علیؒسہسرامی، حضرت مولانا کفایت حسینؒ، حضرت مولانا زین العابدینؒ اور حضرت مولانا عثمان غنی ۔ مجلس شوریٰ نے26سال اس عالم دین کو امارت شرعیہ کا پہلا ناظم مقرر کیا۔
حضرت مولانا سجادؒ نے مولانا محمد عثمان غنیؒ کے والد کو محترم کو دیورہ خط لکھا کہ ’’عثمان غنی کو میں نے امارت شرعیہ نظامت کے لئے بلایا ہے، آپ ان کو اجازت دے دیجئے گا، روکئے گا نہیں‘‘۔
آپ مولانا سجادؒ اور شاہ محمد قاسمؒ کے ساتھ 9 ذیقعدہ 1339ھ کو پھلواری شریف پہنچے اور آپ نے خانقاہ مجیبیہ کے ایک کمرے کو جو جنوب کی طرف بڑے دروازے کی دوسری منزل پر ہے، دفتر کے لئے پسند کیا، اس طرح 9 ذیقعدہ 1339ھ کو خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں امارت شرعیہ کا وہ تاریخی دفتر قائم ہوا، جہاں سے ہندوستان کی آزادی کا پرچم بلند ہوا ا ور آج بھی شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
یہ مولانا دینی و قومی زندگی کی ابتدا تھی ، سن1924ء مطابق 1343ھ میں امارت شرعیہ نے اپنا ایک پندرہ روزہ اخبار نکالنا طے کیا اور اس اخبار کا نام ’’امارت ‘‘ رکھا جس کا پہلا شمارہ یکم محرم 1343ھ کو مولانا کی ادارت میں منظر عام پر آیا ، اس اخبار کی ادارت اور امارت شرعیہ کی نظامت کے علاوہ مولانا شاہ عباس ؒ کے انتقال کے بعد دار الافتاء امارت شرعیہ کے آپ ہی مفتی مقرر ہوئے اور قریب 50سال تک آپ کے تفقہ اور افتاء سے بہار کے عوام و خواص مستفید ہوتے رہے۔ آپ کو جزئیات فقہ اور افتاء میں پورا عبور حاصل تھا۔ اس لئے صوبہ بہار اور بیرون صوبہ کے بھی اکثر و بیشتر استفتاء آپ کے پاس آتے تھے اور لوگ آپ کے مدلل جوابات سے مطمئن ہوتے تھے۔ تحقیق مسائل اور تشریح علوم میں آپ سب لوگوں کے مستند اور معتمد علیہ تھے۔ بعض مسائل میں مولانا موصوف اپنی خاص رائے رکھتے تھے، جس سے انکی اصابت فکر اور تفقہ کا پتہ چلتا ہے، آپ کے فتاویٰ سے دار الافتاء کو بڑا وقار اور اعتماد حاصل ہوا۔
’’امارت‘‘ کے پہلے ہی شمارے سے مولانا کے بلند مرتبہ اور صاحب طرز صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ادب و صحافت کے میدان میں آپ کی حق گوئی اور بے باکی کے اوصاف نمایاں ہونے لگے، تاریخ صحافت آپ کے قلم کو ہمیشہ یاد رکھے گی، جس نے بزدلوں کو بہادری سکھائی ، خدا ناشناسوں کو خدا شناسی کا درس دیا، سادگی اور دلکشی کے اعتبار سے اس وقت دو ہی صحافت نگار تھے، پنجاب میں مولانا غلام رسول مہر ؔاڈیٹر انقلاب، لاہور اور بہار میں مولانا عثمان غنی ؒ اڈیٹر امارت ونقیب پھلواری شریف ، سیاسی اور فقہی مسلک سے اختلاف کے باوجود ، ہر شخص ان دونوں کا معترف ، مداح اور معتقد تھا۔
وہ دور انگریزی حکومت کے عروج کا دور تھا، اس وقت اعلان حق و صداقت دارو رسن کی آزمائش کے متارادف تھا، لیکن مولانا کبھی مرعوب نہیں ہوئے، حکومت برطانیہ کی فرو گذاشتوں پر نہایت جارحانہ انداز میں گرفت کرنے کے نتیجہ میں حکومت نے آپ کی تحریروں پر بار بار مقدمے چلائے اور بالآخر جریدہ ’’امارت‘‘ کو غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیا گیا۔
اخبار’’امارت‘‘ کے 8 مئی 1926ء کے اداریہ کو حکومت نے قابل اعتراض قرار دے کر اس شمارے کو ضبط کر لیااور مولانا پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا-
27 نومبر 1926ء کو عدالت زیریں نے ایک سال قید اور پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ میں اپیل کی گئی۔ 27 دسمبر کو اپیل کی منظوری کے بعد مولاناضمانت پر جیل سے رہا ہو گئے۔ ہائی کورٹ نے قید کی سزا ختم کر دی۔ لیکن جرمانہ بحال رکھا جو ادا کر دیا گیا۔
اگست 1927ء میں بتیا میں ایک زبردست فساد ہوا، جس کے خلاف آپ نے 20 صفر 1346ھ مطابق 19 اگست 1927ء کے ’’امارت‘‘میں ایک اداریہ لکھا ، حکومت بہار نے اس اشاعت کو ضبط کر لیا اور آپ پر زید دفعہ 153(F)مقدمہ چلایا، اس میں پھر ایک سال قید اور ڈھائی سو روپئے جرمانے کی سزا ہوئی۔ ڈسٹرکٹ جج کے یہاں اپیل دائر کی گئی، مولانا کے وکیل بہار کے معماروں میں سے ایک اور اس وقت کے مشہور قانون داں مسٹر علی امام تھے، ایک دن جیل میں رہ کر مولانا ضمانت پر رہا ہوئے۔ 30 اپریل 1928ء کو اپیل کا فیصلہ ہوا اور مولانا بری کردئے گئے۔تیسری بار پھر حکومت بہار نے 1352ھ کے ’’امارت‘‘ کے اداریہ کو قابل اعتراض قرار دے کر 1000روپئے کی ضمانت طلب کر لی، جس کے ادا نہ کرنے پر حکومت نے اخبار کو بند کر دیا۔
اس کے بعد اخبار نقیب کا اجراء عمل میں آیا ، اسکے قانونی اڈیٹر اسکے مینیجر مولوی صغیرالحق ناصری مرحوم تھے، لیکن عملاً اسکے مدیر بھی مولانا ہی تھے، ہندستان کی آزادی کے بعد 20-5 جمادی الاخری 1368ھ مطابق 20-5 اپریل 1949ء کے شمارے سے اڈیٹر کی حیثیت سے نقیب پر پھر آپ کانام آنے لگا۔
حضرت مولانا سید محمدعثمان غنیؒ نے صرف امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے ہی دین و ملت کی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ ہندوستان کی قدیم ترین جماعت ’’ جمعیتہ العلماء‘‘ سے بھی آپ کا اٹوٹ تعلق رہا۔ جب سے جمیعتہ العلماء بہار کا قیام عمل میں آیا ، آپ اس وقت سے تا زندگی 1397ھ تک 61 سال مجلس عاملہ کے رکن رہے اور اس درمیان نائب ناظم، ناظم ، نائب صدر اور صدر کے عہدہ پر فائز ہوتے رہے۔ مرکزی جمیعتہ العلماء ہند کی مجلس منتظمہ کے بھی تاحیات رکن رہے تھے، جمیعتہ العلماء کے زیر انتظام دینی تعلیمی بورڈ کو بھی مولانا کا تعاون حاصل رہا۔ مولانا اس کی صوبائی شاخ کے صدر تھے۔
خاندانی شرافت و نسبی وجاہت نیز علمی عظمت کے ساتھ ساتھ مولانا تصوف و شریعت کے بھی جامع فرد تھے، ایک طرف توآپ نے حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری ؒ جیسے متبحر و محقق عالم سے شرف تلمز حاصل کیا تو دوسری طرف ایک صاحب نسبت اور شیخ طریقت بزرگ حضرت شاہ فدا حسین ؒ دیورہ ضلع گیا سے علوم طریقت حاصل کیا او ر انکی طرف سے بیت وارشاد کے مجاز بھی تھے، مگر عملاً کبھی آپ نے اس کو اختیار نہیں کیا۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا محمد عثمان غنی ؒجیسی فعال شخصیت کم وجود میں آتی ہے جو مختلف اقسام کے مشاغل و مناصب کو بحسن و خوبی پورا کرے اور جس میں ایسی جامع صلاحیت ہو کہ ہر ایک کام کے لئے موزوں اور راست آئے۔
26 ذی الحجہ 1397ھ مطابق 8 دسمبر 1977ء یوم پنچ شنبہ کو پھلواری شریف میں مولانا کا انتقال ہوا اور قبرستان خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں آپ مدفون ہوئے۔
+ There are no comments
Add yours